آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
کردیتے تھے، عاشقوں کو اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے میں مزہ آتا ہے۔ مجنوں لیلیٰ کی گلی کے بھک منگوں کو روٹی تقسیم کیا کرتا تھا، تو مولیٰ کے عشق و محبت میں ڈھائی فیصد دینے میں کیوں جان نکلتی ہے؟ ایک لاکھ پر ڈھائی ہزار دیکھتے ہو کہ جارہا ہے، بقایا جوساڑھے ستانوے ہزار لیے بیٹھے ہو اس پر کیوں شکر نہیں کرتے؟ تو روزے کی فرضیت،نماز کی فرضیت، زکوٰۃ کی فرضیت میں محبت ثابت ہوگئی۔ اب رہ گیا اللہ کے گھر کا طواف، تو حج اللہ نے زندگی میں ایک مرتبہ فرض کیا ہے اور وہ بھی جب پیسہ ہو، غریبوں پر حج فرض نہیں، اور حج کی عبادت تو بالکل عاشقانہ ہے، کپڑوں کا بھی ہوش نہیں، سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے احرام میں جسم لپٹا ہوا ہے، بکھرے ہوئے بال غبار آلود، زیب و زینت سے دور، کبھی میدانِ عرفات میں گرد و غبار میں اللہ کو یاد کررہے ہیں،کبھی دیوانہ وار بیت اللہ کے چکر لگارہے ہیں۔ ہر عاشق محبوب کے گھر کے چکر لگاتا ہے۔ مجنوں کہتا تھا ؎ اَمُرُّ عَلَی الدِّیَارِ دِیَارِ لَیْلٰی اُقَبِّلُ ذَا الْجِدَارَ وَ ذَا الْجِدَارَ وَ مَا حُبُّ الدِّیَارِ شَغَفْنَ قَلْبِیْ وَ لٰکِنْ حُبَّ مَنْ سَکَنَ الدِّیَارَ جب لیلیٰ کے گھر سے گزرتا ہوں تو اس کے درودیوار کو چومتا ہوں، لیکن میرا دل گھر پر عاشق نہیں ہے بلکہ جو اس گھر میں ساکن ہے۔ ایک غریب مسکین کو حج کا شوق ہوا تو پیدل ہی نکل پڑا اور راستہ بھر اللہ کے عشق و محبت میں گاتا بجاتا جارہا تھا۔ لوگ اس کو سمجھے کہ کوئی پاگل ہے، آخر مکہ مکرمہ پہنچ کر جب کعبے شریف پر اس کی نظر پڑی تو ایک شعر پڑھا اور وہیں جان دے دی۔ وہ شعر کیا تھا ؎ چوں رسی بہ کوئے دلبر بسپار جانِ مضطر کہ مبادا بارِ دیگر نہ رسی بدیں تمنا اے شخص جب تو اپنے محبوب مولیٰ کے گھر آگیا تو اپنی جان فدا کردے، نہ جانے ایسا موقع پھر آئے نہ آئے، ہوسکتا ہے کہ دوبارہ تجھے اللہ کے گھر آنا نصیب نہ ہو۔ بس یہ شعر پڑھا اور مرگیا، اللہ پر جان دے دی۔ اسلام تو محبت ہی محبت ہے۔ وہ ظالم ہے جو کہتا ہے کہ یہ مصیبت ہے، ایسی باتیں کمینہ خصلت ہی کرتے ہیں۔ اب رہ گیا جہاد تو جہاد بھی ظلم نہیں ہے۔ عاشقوں سے پوچھو کہ جان دینا ظلم ہے یا عشق کی انتہا