آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
یہ میرے عاشقین ہیں۔ اﷲ پاک نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے صبر کو لذیذ فرمادیا کہ آپ کو ان کے پاس بیٹھنے کا حکم دے رہا ہوں جو میرے عاشقین ہیں اور عاشقوں میں مرنا جینایہ مرادِ نبوت اور مرادِ ولایت ہے، تو مَعَ الَّذِیْنَ کون لوگ ہیں؟ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ ہیں، یہ اپنے رب کو یاد کرنے والے ہیں، بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّیہ صبح شام ہم کو یاد کرتے ہیں، تو میں آپ کواپنے عاشقوں میں بھیج رہا ہوں، غیروں میں نہیں بھیج رہا ہوں، تاکہ ان کو آپ کے صبر کی برکت سے معیتِ رسول حاصل ہو اور قیامت تک اولیاء اﷲ کی معیت اور صحبت نصیب ہو۔ تو ذکر کا دوام بھی چاہیے، اگر ذکر نہیں کرو گے تو خالی صحبت کافی نہیں ہے، کیوں کہ ذکر ذاکر کو مذکور تک پہنچا دیتا ہے، اور اﷲ چوں کہ میگنٹ کا خالق ہے تو بندے کو اﷲ کی طرف کشش ہوجائے گی، کیوں کہ جو میگنٹ پیدا کرسکتا ہے خود اس کی ذات میں کتنا میگنٹ ہوگا؟ تو اﷲ کے نام میں مقناطیس ہے، جیسے جیسے اﷲ کہتے جاؤ گے اﷲ کی طرف کھنچتے چلے جاؤ گے ؎ اﷲ اﷲ گو بہ رو تا تخت عرش یہ مولانا رومی ہیں کہ اﷲاﷲ کہو تاکہ عرشِ اعظم تک پہنچ جاؤ ؎ اﷲ اﷲ ایں چہ شیرین است نام اور یہ عجیب میگنٹ ہے، اس میں مٹھاس بھی ہے۔ جو سارے عالم کی مٹھائی پیدا کرتا ہے اس کا نام ہے خالقِ لذاتِ شیرینی کائنات۔ تو اﷲ کا نام لینے میں دو فائدے ہوئے، مزہ بھی آیا اور کشش بھی ہوئی یعنی آپ کا نفس اور آپ کا دل اﷲ کی طرف کھنچتا چلا جائے گا پھر آپ اور کسی کے نہیں ہوسکیں گے اور بزبانِ حال یہ شعر پڑھیں گے ؎ نہیں ہوں کسی کا تو کیوں ہوں کسی کا اُنہی کا اُنہی کا ہوا جارہا ہوں تو اﷲ تعالیٰ نے اس آیت کے اندر سلوک و تصوف کے حسبِ ذیل مسائل ارشاد فرما دیے کہ اگر تمہیں اﷲ والا اور ولی اﷲ بننا ہے، اب نبی تو آپ نہیں بن سکتے مگر ولی اﷲ کے آخری مقام تک پہنچ سکتے ہو، اولیائے صدیقین کی خط انتہا تک پہنچ سکتے ہو، جس کے آگے پھر نبوت ہے اور اب نبوت کے دروازے بند ہیں، اگر تمہیں اﷲ والا بننا ہے تو تم شیخ کی صحبت میں رہو اور اﷲ کا بھی کچھ ذکر کرو بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ، صَبَاحًا وَمَسَاءً صبح وشام۔ مگر ایک شرط ہے، جو شرط بھی ہے اور جزا بھی ہے اور وہ شرط کیا ہے؟ وہ شرط یہ ہے کہ میں تمہارے