آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
کر۔ اﷲ کے عاشقوں سے عاشق بنتے ہیں۔ مدارس ہمیں عالمِ منزل بناتے ہیں، خانقاہیں اور اﷲ والے ہمیں بالغِ منزل بناتے ہیں۔ علمِ منزل اور ہے اور بلوغِ منزل اور ہے، علمِ منزل تو یہ ہے کہ راستہ دِکھا دیا کہ بھئی یہاں سے ایسے چلے جائیں، وہ فلاں گاؤں نظر آرہا ہے، یہ علم ہے، مگر ہاتھ پکڑ کر اس گاؤں تک پہنچا دے یہ بلوغِ منزل ہے، علمِ منزل تو مدارس سے حاصل کرلو، مگر بالغِ منزل وہی ہوگا جو کسی بالغِ منزل کا ہاتھ پکڑے۔ اس زمانے میں حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اگر زندگی میں صرف چالیس دن کسی اﷲوالے کے پاس رہ لو تو نسبت مل جائے گی پھر خط وکتابت سے ترقی ہوتی رہے گی، خط وکتابت سے ترقی کرتے رہو، مگر چالیس دن ایک مرتبہ رہ لو۔ حکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ مسلسل اکیس دن تک انڈے پر مرغی بیٹھتی ہے تب بچوں میں جان آتی ہے، مردہ انڈے زندہ ہوجاتے ہیں پھر بچے اپنی چونچ سے اس کا چھلکا اُتار کر باہر آجاتے ہیں اور بزبانِ حال یہ شعر بھی پڑھتے ہیں، بزبانِ حال یاد رکھو، ورنہ اعتراض کرو گے کہ مرغی کا بچہ یہ کیسے پڑھ سکتا ہے؟ تو بزبانِ حال کہتے ہیں ؎ کھینچی جو اک آہ تو زنداں نہیں رہا مارا جو ایک ہاتھ گریباں نہیں رہا مگر میں گریبان نہیں پھاڑوں گا، کیوں کہ حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ایک مولوی کا قصہ لکھا کہ وہ جہاں وعظ کرنےجاتاتھا، تو نیا جوڑا وصول کرنے کے لیے وہ کمزور کپڑا جو پھٹا پرانا ہوجاتا تھا اس کو پہن کرجاتا تھا پھر نعرہ مار کر اپنے کپڑے پھاڑ دیتا تھا، اب جس کے یہاں وہ وعظ کہتا تھا وہ بیچارا مارے شرم کے ایک جوڑا دے دیتا تھا۔ تو مجھے آپ سے کپڑا نہیں لینا میرا کپڑا بھی نیا مضبوط ہے۔ تو اکیس دن کے بعد مردہ انڈوں میں جان آجاتی ہے۔ اگر چالیس دن کسی اﷲ والے کی صحبت میں رہو جہاں آپ کو مناسبت ہو، تو چالیس دن میں آپ کی روح میں حیات آجائے گی پھر تمام زنجیروں کو آپ خود توڑ دیں گے۔ ایک صاحب نے لکھا کہ اگر پیر کہیں رہے اور مرید کہیں رہے تو کیا خط وکتابت سے کام نہیں ہوسکتا؟ تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بیوی کہیں رہے شوہر کہیں رہے، دس سال خط وکتابت کرتے رہیں، اولاد ملے گی؟ تو جیسے حیاتِ جسمانی کے لیے ملاقات ضروری ہے اسی طرح حیاتِ روحانی کے لیے بھی کسی اﷲ والے کی صحبت میں رہو، یہ نہ سمجھو کہ شیخ وہاں ہے ہم یہاں ہیں، اس کی روح آپ کی روح کے اندر اﷲ کی محبت،احسانی کیفیت اور دردِ دل منتقل کرتی رہے گی ۔جو لوگ اﷲ والوں کے پاس رہے ان سے پوچھو کہ وہ خود حیران رہ گئے کہ میں کیا تھا اور اب کیا ہوگیا ہوں! خواجہ عزیز الحسن صاحب ڈپٹی کلکٹر تھے،