آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
خلوتِ غارِ حرا سے ہے طلوعِ خورشید کیا سمجھتے ہو تم اے دوستو ویرانوں کو یہ میرا شعر ہے۔ غارِ حرا کی تنہائیوں سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کا سورج نکلا، آپ کو نبوت تو وہیں ملی ہے۔ آپ لوگ تو یہاں تھوڑی دیر کے لیے آئے ہو، آج سے تیس سال پہلے میں نے آٹھ دن کراچی سے پچاس کلو میٹر دور دریا کے کنارے اس حال میں گزارے کہ کوئی عمارت نہیں تھی، یہاں تو ماشاء اﷲ شاندار بنگلہ بنا ہوا ہے، ہم تو دریا کی ریت پر تھے، آٹھ دس آدمی ساتھ تھے اور خوراک اور غذا کیا تھی، مچھلی کا شکار۔ کڑاہی، تیل اور نمک مرچ ساتھ تھا، میرے دوستوں نے مچھلی شکار کی اور تلی اور ایک میل دور ایک ہوٹل تھا وہاں سے روٹی لے آتے تھے، اسی سے گزارہ ہوتا تھا دوپہر کو ذرا دھوپ تیز ہوتی تھی تو وہاں کارپوریشن کا ایک اتنا بڑا پائپ پڑا ہوا تھا کہ اس میں ایک آدمی کھڑا ہوسکتا تھا اس میں ہم لوگ چھپ جاتے تھے۔ تو اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہر قسم کے دن دیکھے ہیں۔ ایک اور بہت بڑی بات یاد آگئی۔ میرے شیخ شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ ندی میں تیرنے کے امام تھے، کھڑے کھڑے، لیٹے لیٹے، بیٹھے بیٹھے تیرتے تھے، انہیں چار پانچ قسم کا تیرنا آتا تھا۔ تو ایک مرتبہ میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ نے وضو کیا اور جب گہرے پانی میں چلے گئے، تو لنگی اتار کر میری طرف پھینک دی اور اسی دریا کا تھوڑا سا پانی پی لیا، پھر دیر تک دعا مانگی۔ بعد میں مجھ کو بتایا کہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس کے پیٹ میں حرام غذا ہوگی اور جس کے جسم پر حرام لباس ہوگا وہ کتنا ہی روئے اس کی دعا قبول نہیں ہوگی، تو شیخ الہند رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ میرے قلب میں اﷲ نے ایک طریقہ بتایا کہ تم دریا میں ذرا گہرے پانی میں چلے جاؤ، وہاں نہا دھولو، وضو کر لو اور تھوڑا سا پانی پی لو اور کپڑے کسی کو دے دو اور اس طرح دعا مانگو کہ جسم پر پانی کا کپڑا ہو اور پیٹ میں پاک پانی ہو، اب حرام کا کوئی شک ہوسکتا ہے؟ جسم پر پانی کالباس اور پیٹ میں پانی کی غذا، اب جو دعا مانگے گا قبول ہوجائے گی۔ شیخ الہند رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ ارشاد آج سمندر کے کنارے میرے اﷲ نے ابھی ابھی مجھے یاد دلایا۔ آج موقع ہے اس پانی میں نہا کے وضو کر کے دعا مانگ لو اور میرے لیے بھی دعا مانگو، کیوں کہ اب مجھے ٹھنڈے پانی میں نہا کر بخار اور نزلہ ہوجاتا ہے، میں اس طرح دعا مانگ چکا ہوں، الحمدﷲ ہم آٹھ دن دریا ہی کے کنارے ریت پر تھے، وہاں کوئی گدّا بھی نہیں تھا، بس ریت پر چادر بچھائی اور رات کو اسی ریت پر