آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
میر اب دل کو کس سے بہلائے اُڑ گیا رنگ حسنِ فانی کا واہ واہ! یہ شعر بہت خوبصورت ہے، میر اب دل کو کس سے بہلائے ؎ زخمِ حسرت ہزار کھائے ہیں تب کہیں جا کے ان کو پائے ہیں یعنی حسینوں سے نظر بچاؤ اور دل پر زخم کھاؤ تب اﷲ ملتا ہے۔ جب لیلیٰ سے دل کو بچایا تو مولیٰ کو پایا، دونوں چیزیں جمع نہیں ہوتیں۔ اپنی بیوی تو حلال ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے غیر عورت کو دیکھنے سے مولیٰ کیسے ملے گا؟ چلو آگے پڑھو ؎ شکل بگڑی تو بھاگ نکلے دوست یہ دوست جو میں نے استعمال کیا ہے یہ تَاکِیْدُ الذَّ مِّ بِمَا یَشْبَہُ الْمَدْحَ ہے، یہ گویا میں نے طمانچہ لگایا ہے ؎ جس پہ ہوتا ہے فضلِ رحمانی ترک کرتا ہے کارِ شیطانی اﷲ کے فضل اور مہربانی کی علامت یہ ہے کہ بندہ اﷲ تعالیٰ کو ناراض نہیں کرتا، اپنا دل توڑ دیتا ہے اﷲ کا قانون نہیں توڑتا اور اس ٹوٹے ہوئے دل میں اﷲ رہتا ہے، اس کا گھر ٹوٹا ہوا دل ہے اور اﷲ کو ٹوٹا ہوا دل پسند ہے، ہم لوگ تو ثابت گھر کو پسند کرتے ہیں، مگر اﷲتعالیٰ اپنے عاشقوں کے ٹوٹے ہوئے دل کو پسند کرتا ہے، جو اپنی بُری خواہشات کو توڑ دے اس ہی کو اﷲ ملتا ہے۔ اور ایک دن تو حسینوں سے خود ہی بھاگو گے جب اس کا بڑھاپا آجائے گا اور شکل بگڑ جائے گی، جو شکل بگڑنے کے بعد بھاگتا ہے وہ باگڑبلا ہوتا ہے، عارف باﷲ وہ ہے جو جوانی میں اﷲ کے نام پر قربان رہے اور کسی کو نہ دیکھے۔ اس پر ایک شعر ہے ؎ اِدھر جغرافیہ بدلا اُدھر تاریخ بھی بدلی نہ ان کی ہسٹری باقی نہ میری مسٹری باقی اِدھر جغرافیہ بدلا یعنی جب چہرے کا ڈیزائن بدل گیا تو جتنے رام نرائن تھے سب ریزائن دے کر بھاگے۔ چند دنکے بعد ان حسینوں سے خود بھاگو گے، کیوں کہ چند دن کے بعد شکل بگڑ جاتی ہے، بڑھاپا آجاتا ہے۔