آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
سن لو جو حاصل ہےسفرِ ملاوی کا ؎ وہ شاہِ دو جہاں جس دل میں آئے مزے دونوں جہاں سے بڑھ کے پائے جو جنت پیدا کرسکتا ہے وہ اﷲ جس کے دل میں آتا ہے وہ جنت سے بڑھ کر مزے پاتا ہے کیوں کہ جنت اﷲ کے برابر نہیں ہوسکتی، مخلوق اﷲ کے برابر نہیں ہوسکتی،جو دل میں مولیٰ کو پاگیا وہ جنت سے زیادہ مزے پاگیا کیوں کہ جنت حادِث ہے، پہلے نہیں تھی بعد میں پیدا ہوئی اور مولیٰ ازل سے ابد تک ہے، وہ قدیم ہے، واجب الوجود ہے، خالق ہے، خالق اورمخلوق برابر نہیں ہوسکتی بعض لوگ خالق اور مخلوق کو، عابد اور معبود کو اور ساجد اور مسجود کو برابر کرنا چاہتے ہیں، اس میں خاص اشارے ہیں سمجھ لو! بس اﷲ تعالیٰ پر مرنا سیکھو، واﷲ! قسم کھا کر کہتا ہوں بحیثیت مسافر اور مومن ہونے کے کہ جس دن مولیٰ دل میں پاؤ گے بھول جاؤ گے کہ دنیا کہاں رہتی ہے ؎ ترے جلوؤں کے آگے ہمتِ شرح و بیاں رکھ دی زبانِ بے نگہ رکھ دی نگاہِ بے زباں رکھ دی (اصغرؔ گونڈوی) میری شاعری میرے دردِ دل کی آواز ہے اور میرے اکثر اشعار آدھی رات کے بعد کے ہیں۔ مولانا رفیق ہتھورانی میرے خلیفہ بھی ہیں انہوں نے میرے اشعار کے مجموعہ فیضانِ محبت سے انتخاب کرکے اشعار سنائے ہیں،فیضانِ محبت کی جلد حسین وجمیل ہے، کاغذ اعلیٰ اور قیمتی ہے، کتابت شاندار ہے، علماء کہہ رہے ہیں کہ ایسی کتابت اور ایسے اشعار ہم نے آج تک کسی کے کلا م میں نہیں دیکھے۔ اﷲ تعالیٰ اس مجموعۂ کلام کو جمالِ ظاہر و باطن عطا فرمائے، آمین۔ مولانا رفیق ہتھورانی کا انتخاب مجھے اتنا پسند آیا کہ میں نے ان کے انتخاب پر ایک شعر ان کو سنایا جو میرے مرشد شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ پڑھا کرتے تھے ؎ چھانٹا وہ دل کہ جس کی ازل میں نمود تھی پسلی پھڑک گئی نظرِ انتخاب کی بتاؤ! نظر انتخاب میں کہیں پسلی ہوتی ہے؟ مگراس ظالم شاعرنے یہ محاورہ کہاں استعمال کیا اور کیا عمدہ استعمال کیا ؎ پسلی پھڑک گئی نظرِ انتخاب کی