آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ہے! مرنے والوں پر مرنا یہ کوئی کمال نہیں ہے بلکہ اس میں زوال ہے، مرنا ہے تو مولیٰ پر مرجاؤ، لہٰذا جب جہاد فرض ہوجائے تو وہاں اپنا مال بھیج دو جہاں جہاد ہور ہا ہے۔ حدیث میں ہے: مَنْ جَہَّزَ غَازِیًا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَقَدْ غَزَا؎ جس نے مجاہد کو روٹی پانی وغیرہ سے مدد دی تو وہ بھی جہا د کا ثواب پائے گا۔ جس نے کسی جہاد کرنے والے کو مال دیا تو گویا کہ اس نے بھی جہاد کیا، لیکن جب جہاد فرضِ عین ہوجائے تب خالی مال دینے سے کام نہیں چلے گا کہ تیسرے کمرے میں چھپ جاؤ اور کہو کہ جلدی سے مال دے دو، ہم یہاں جان بچائے بیٹھے ہیں۔ میرے شیخ نے فرمایا کہفیض آباد میں ہندوؤں سے جہاد ہورہا تھا، اس زمانے میں نواب واجد علی کی حکومت تھی تو ایک مولانا جہاد میں نکلے، وہ کفن ساتھ لے گئے تھے اور یہ کہتے تھے ؎ سرِ میداں کفن بر دوش دارم اے میرے اﷲ! میں آج آپ پر فدا ہونے کے لیے کفن لے کر حاضر ہوا ہوں، تو جواب میں آسمان سے آواز آتی تھی؏ بیا مظلوم اُکنوں در کَنارم اے مظلوم! میری آغوشِ رحمت میں آجا یعنی میں تیری شہادت قبول کرتا ہوں، میں تیری قسمت میں شہادت مقدر کرر ہا ہوں، یہ آواز آسمان سے آئی۔ میرے شیخ کے وطن کا ایک بڈھا بھی اس جہاد میں شریک تھا اس نے یہ آواز خود سنی۔ آہ! جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ تو مکن تہدیدم از کشتن کہ من تشنۂ زارم بخونِ خویشتن اے دنیا والو! ہم کو قتل کی دھمکی مت دو کہ جان چلی جائے گی، ہم تو اپنے خون کے خود پیاسے ہیں، ہمیں خود ------------------------------