آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
کھل جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری میں اور گناہ چھوڑنے میں اس کا حوصلہ بلند ہوجاتا ہے، وہ لومڑی کی طرح نہیں رہتا، نہایت عالی ہمت ہوتا ہے، کیا مجال کہ ایک نظر ایئرہوسٹس کو دیکھ لے، وہ ایک لمحہ کے لیے اللہ کو ناراض نہیں کرتا، شیرانہ رہتا ہے، بڑے بڑے بت اور حسین اس کے سامنے دست بستہ اور حیرت زدہ ہوتے ہیں کہ یہ تو عجیب اللہ والا ہے کہ ہمیں دیکھتا تک نہیں، دلوں پر اس کی ہیبت بیٹھ جاتی ہے۔ ایک لمحہ جو اللہ کو ناراض نہ کرے تو اللہ تعالیٰ بھی ہر لمحہ اس کو خوش رکھتے ہیں اور اس کو عزت عطا فرماتے ہیں۔ لیکن اس ہدایت کی نعمت کا ظاہری سبب دو نعمتیں اور ہیں: نمبر۱۔ صحبتِ اہل اللہ، نمبر۲۔ ذکرا للہ، جس کے دلائل بہت ہیں، لیکن اس وقت دل میں یہ آیت آرہی ہے وَاصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہورہا ہے کہ آپ ان صحابہ کو اپنی صحبت سے مشرف فرمائیں جو صبح و شام ہم کو یاد کرتے ہیں۔ وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ صحبتِ شیخ کی دلیل ہے، کیوں کہ متبعِ سنت شیخ نائبِ رسول ہے، پیغمبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد اللہ والے ہی ان کے نائب ہیں،ان کے ساتھ رہنا وَاصۡبِرۡ نَفۡسَکَ کو پالینا ہے۔ جو اپنے شیخ کی صحبت میں رہتا ہے وہ وَاصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَمیں داخل ہوگیا، لیکن خالی شیخ کے پاس رہنا کافی نہیں ہے، تھوڑا سا اللہ کا ذکر بھی کرو، کیوں کہ جن کے لیے وَاصْبِرْ نَفْسَکَکا نبی کو حکم ہورہا ہے اس اَلَّذِیۡنَ کے افراد کی صفت یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَالۡعَشِیِّہے کہ وہ صبح و شام اپنے اللہ کو یاد کرتے ہیں، صحابہ اللہ کو یاد کیا کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ شیخ کی صحبت کے ساتھ ذکر اللہ کا اہتمام بھی ضروری ہے، مگر ذکر بھی شیخ کے مشورہ سے کرو۔ ڈاکٹر ایک کیپسول بتائے اور کوئی تین کیپسول کھالے تو مرے گا یا نہیں؟ شیخ جتنا بتائے اس تعداد کی رعایت رکھو اور پابندی سے اللہ کا نام لیتے رہو۔ پس اللہ تعالیٰ جس کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کو وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ بھی دیتا ہے،کسی اللہ والے سے اس کو دلی محبت ہوتی ہے، اس کے ساتھ رہتا ہے اور اللہ والے کا بتایا ہوا وظیفہ بھی پڑھتا ہے۔ ان دو اعمال کی برکت سے تیسرا انعام کیا ملتا ہے؟ سنیے! یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے صدقے میں اور میرے نام کے صدقہ میں ان صحابہ کا مقام دیکھویُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗان کا حال بن گیا، یُرِیْدُوْنَ مضارع ہے جس میں حال اور استقبال دونوں زمانہ ہوتا ہے یعنی حال میں بھی اورمستقبل میں بھی صرف میں ہی اُن کے دل کی مراد ہوں اور یہ میرے مرید ہیں۔ ان کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جب میں ان کے دل میں مراد نہ رہوں، کوئی غیر مراد ہوجائے، حا لًّااور استقبالاً ان کے دل میں کوئی غیر اللہ نہیں آتا۔