آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
آج کل مولوی بھی چیلنج بولتا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اُردو غالب رہے، میں سارے عالم کے رومانٹک کو للکارتا ہوں کہ جتنے لوگ نظر کی حفاظت نہیں کرتے ان کے دل پر مسلسل اور پیہم پریشانیاں ہیں، یہ میرا تجربہ ہے، لونڈیوں اور لونڈوں کے چکر والوں نے آکر مجھ کو معالج ہونے کی حیثیت سے بتایا کہ صاحب ایک پل کو چین نہیں ہے، میں نے دوا لکھی تو اس نے کہا کہ میں نے تو ساری تنخواہ اس لونڈے کو دے دی جو پشاور چلا گیا اور میرے بیوی بچے بھوکوں مررہے ہیں۔ یہ مرض اتنا خبیث ہے کہ ظالم کے پاس دوا کے پیسے بھی نہیں تھے اور کہتا تھا کہ نیند نہیں آرہی ہے، دل پریشان ہے، اور ایسا ہی دوسرا گروہ جو لونڈیوں کے چکر میں رہتا ہے، اس کی بھی نیند حرام ہوتی ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ مجھے نیند نہیں آرہی ہے اورمیرے دماغ میں جیسے کوئی کھونٹا ٹھونک رہا ہے اور دل پر جیسے کوئی ہتھوڑا مار رہا ہے، ایک پل کو چین نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ جو اﷲ کو ناراض رکھتا ہے اس کے لیے یہی عذاب لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَا یَحۡیٰی؎ رہتا ہے، یہ دوزخ کا عذاب ہے جو ا س کو بدنظری اور عشق بازی کی وجہ سے دنیا ہی میں ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ اختر کو عشق بازی والوں کے لیے اس کیفیت کی ترجمانی ایک اُردو شعر میں کرنی پڑی ؎ ہتھوڑے دل پہ ہیں مغزِ دماغ میں کھونٹے بتاؤ عشقِ مجازی کے مزے کیا لوٹے ایسے لوگوں کو میں نے چند دن خانقاہ میں رکھ کر اﷲ کا نام سکھایا اور اﷲ سے دعا بھی مانگی۔ الحمد ﷲ وہی لوگ کہنے لگے کہ میں آگ میں جل رہا تھا اب ٹھنڈے پانی میں آگیا ؎ گر خفاشے رفت در کور و کبود بازِ سلطاں دیدہ را بارے چہ بود اگر چمگادڑ پیشاب اور پاخانے کی نالیوں میں گھس کر پیشاب پیتا ہے او رپاخانہ چوستا ہے تو ہم کوکوئی تعجب نہیں ہے لیکن جس باز نے بادشاہ کو دیکھا ہوا ہے اس ظالم کو کیا ہوگیا کہ بازِ شاہی ہوکر وہ موش بنا ہوا ہے۔ موش فارسی میں چوہے کو کہتے ہیں۔ تو مرید کے معنیٰ ہیں کہ اب وہ بازِ شاہی کے مقام کو سمجھنے لگا ہے۔ مولانا جلال ------------------------------