آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
یعنی ہم اپنا راز چھپا رہے تھے، مگر جب ہم نے انتخاب کیا اس وقت سب ہم کو جان گئے اور ہمیں بھانپ لیا ؎ نہیں ختم ہوتی ہے موجِ مسلسل مرے بحرِ غم کا کنارا نہیں ہے میرے اشعار پڑھو کہ اختر کن کن حالات سے گزرا ہے۔ یہ اشعار میری تاریخ ہیں، ہر شعر میری تاریخِ زندگی ہے کہ کس حالت میں میں نے یہ شعر کہا ہوگا ؎ کوئی کشتیٔ غم کا ہے ناخدا بھی مری موجِ غم بے سہارا نہیں ہے ہمارے غم کی کشتی کا اﷲ تعالیٰ نگہبان ہے۔ جس کو اﷲ اپنا غم دیتا ہے اس کے غم کی کشتی کی نگہبانی اور دیکھ بھال بھی رکھتا ہے۔ اپنے عاشقوں کو اور عاشقوں کے غلاموں کو یوں نظر انداز نہیں کرتا کہ جاؤ مرتے رہو ؎ مری موجِ غم بے سہارا نہیں ہے کیا کہیں ایک ایک شعر عجیب و غریب ہے، میرے دردِ دل کا ترجمان ہے۔ اے اﷲ! جیسے تو نے دردِ دل کے نشر کے لیے مجھے زبان بخشی ہے تو اپنی رحمت سے مجھے کان بھی عطا فرما، اور اﷲ کا کروڑ کروڑ شکر ہے کہ سارے عالم میں کان مل رہے ہیں،یہ اﷲ تعالیٰ کا کرم ہے کہ جس کو دردِ دل دیتا ہے اس کو زبانِ ترجمانِ دردِ دل بھی دیتا ہے اور اس کے لیے کان بھی دیتا ہے کہ سنو میرے عاشقوں کے دردِ دل کی داستاں۔ تو اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے ہر ملک میں مجھے کان مل رہے ہیں، مولانا ایوب سورتی لیسٹر برطانیہ میں میرے ساتھ تھے، اب آپ یہاں مجمع دیکھ رہے ہیں، پھر ملاوی چلیں گے، اس کے بعد موزمبیق بھی چلنا ہے ان شاء اﷲ۔ جہاں دو دریا ملتے ہیں وہ سنگم کہلاتا ہے جیسے الٰہ آباد میں جمنا اور گنگا ملتے ہیں، اور جہاں تین دریا ملتے ہیں وہ تربینی کہلاتا ہے۔ مالک کا احسان و کرم ہے، میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اﷲ تعالیٰ نے جوانی ہی سے اﷲ والوں پر فدا ہونے کا شوق اور ذوق بخشا، سولہ سترہ سال کی عمر میں تو لوگ کیا کیا تفریح کرتے ہیں، لیکن ہماری تفریح اﷲ والوں کی آغوشِ محبت تھی، اِن ہی اﷲ والوں کے پاس مجھے سارے عالم کی تفریح ملتی تھی۔پندرہ سولہ سترہ سال کی عمر میں میں نے تین سال حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑ ھی رحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھ گزار ے پھر شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھ سولہ برس جنگل میں گزارے اور حضرت کے بارے میں کیا کہوں ؎