آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
۲) اَلَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا بِدُوْنِ مَسْئَلَۃٍ وَّ لَاسُؤَالٍ جوبغیر مانگے بھی دے دے، جیسے بچے بعض اوقات سردی میں کانپ رہے ہیں،لیکن ابا سے نہیں کہتے کہ سوئیٹر لاؤ، مگر آپ لاتے ہیں کہ نہیں؟ توکیا اباکی رحمت اﷲکی رحمت سے بڑی ہوجائے گی؟ کتنی حاجات کو سوال کے بغیرپورا کرتاہے۔جب بغیر سوال کے ابا دیتاہے توبغیر سوال کے ہمارا ربّا بھی ہماری ہزاروں حاجات پوری کرتاہے ،مگر بچہ چھوٹا ہے نادان ہے، وہ سوال کامزہ نہیں جانتا۔ اﷲنے اپنے بندوں کو مانگنے کا مزہ بھی عطافرمایا کہ بچوں کی نقل مت کرنا کہ ربّا خود ہی دے دیں گے، ہم خود دے سکتے ہیں مگر تم مانگنے کی نعمت سے محروم رہوگے، مانگنے کا مزہ الگ ہے۔ مولانا رومی رحمۃاﷲعلیہ تویہاں تک فرماتے ہیں کہ عام مسلمان جب اﷲسے مانگتا ہے تواس کامقصد ہوتاہے کہ میرا کام بن جائے، لیکن اﷲوالے جب مانگتے ہیں تو ان کا مقصد یہ ہوتاہے کہ اے اﷲ! اسی بہانے سے مجھے آپ سے گفتگو اور بات چیت کاموقع مل رہاہے ؎ از دعا نبود مرادِ عاشقاں جُز سخن گفتن بہ آں شیریں دہاں عاشقوں کی مراد دعا سے کیاہوتی ہے؟ کہ اس میٹھے میٹھے نادیدہ لب والے اﷲ سے گفتگو کاموقع ملتا ہے، اس لیے اﷲ سے مانگنا سنت ہے۔ ۳) کریم کی تیسری تعریف ہے اَ لَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا وَلَا یَخَافُ نَفَادَ مَاعِنْدَہٗ جو بے حد اور بےپایاں عطافرمادے اوراپنے خزانوں کے ختم ہونے کا اس کو خوف نہ ہو۔ ۴) اور کریم کی چوتھی تعریف ہے اَ لَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا فَوْقَ مَا نَتَمَنّٰی بِہٖ؎ جو ہماری امیدوں سے زیادہ ہم کو دے۔ ہم مانگیں ایک لاکھ، دے دے دس لاکھ۔ جیسے کسی نے ایک سخی بادشاہ سے ایک بوتل شہدمانگا تو اس نے ایک مشک دے دیا، نوکرنے کہا کہ حضور! یہ تو ایک بوتل مانگ رہاہے اور آپ نے ایک مشک دے دیا؟ کہاکہ اس نے مانگا اپنی قابلیت سے اور میں نے دیا اپنی قابلیت سے ۔ اسی طرح اﷲکے راستے میں اصلی سخی وہ ہے کہ دین کے کام کے لیے اگرکسی مہتمم کو ایک لاکھ رین(Ran) کی ضرورت ہو، تو دس لاکھ دے دے اور شکر گزار ہوکہ میرے صدقۂ جاریہ کا سامان ہوگیا، مرنے کے بعد تو سب چھوڑ کرچلا جاؤں گا، کچھ کام نہ آئے گا۔ ------------------------------