آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ایک بار اس آیت کی تلاوت کرتے وقت دل میں یہ سوال آیا کہ ایسی گندی قوم کے حالات پر اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مقدس کی قسم اُٹھائی اس میں کیا راز ہے؟ میں جدہ میں سفر کی حالت میں تھا،اس وقت وہاں کوئی تفسیر نہیں تھی۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میرے پاس کوئی تفسیر کی کتاب نہیں ہے لیکن آپ صاحبِ کلام موجود ہیں، اس کی تفسیر آپ مجھے عطا فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے دل میں یہ جواب عطا ہوا کہ یہ قوم اپنی بُری خواہش کے نشے میں تھی اور حضرت لوط علیہ السلام سے گستاخی کررہی تھی اور جتنے لوگ اس زمانے میں متقی تھے ان کو دھمکی دے رہی تھی کہ اِنَّہُمۡ اُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوۡنَ یہ لوگ بہت پاک بنتے ہیںاَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ قَرۡیَتِکُمۡ؎ ان سب کو یہاں سے نکالو۔ یہ لوگ ہمارے مزے میں حائل ہیں۔ جس طرح قومِ لوط کو باہ کا نشہ تھا اسی طرح اہلِ مکہ کو جاہ کا نشہ تھا، وہ تکبر کے نشے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے کہ یہ کل کا یتیم آج ہمارے مذہب کو بدل رہا ہے اور ہمارے بتوں کو بُرا کہہ رہا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارک کی قسم اس لیے کھائی کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)! جس طرح اہلِ باہ شہوت کے نشے میں پاگل ہوکر میرے نبی کے دشمن بن رہے تھے اور میرے نبی کے چراغِ زندگی کو بجھانا چاہتے تھے، اسی طرح اہلِ مکہ کو جاہ کا نشہ ہے اور اپنی جاہ کے نشے میں یہ آپ سے دشمنی کررہے ہیں اور آپ کے چراغِ حیات کو بجھانا چاہتے ہیں، نشہ دونوں میں وصفِ مشترک ہے۔ فرق یہ ہے کہ ایک کو باہی نشہ تھا اور ایک کو جاہی نشہ ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی قسم کھا کر گویا یہ فرمایا کہ جس طرح ہم نے باہ والے خبیثوں سے اپنے نبی لوط علیہ السلام کو بچایا اور ان کے نشۂ باہی کو پاش پاش کردیا،اسی طرح اہلِ مکہ کے نشۂجاہ و تکبر کو بھی ہم پاش پاش کردیں گے اور آپ کی حیات کی حفاظت فرمائیں گے۔ یہ ہے قسم کا راز جو اللہ تعالیٰ نے میرے قلب پر منکشف فرمایا۔ ( احقر راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ اس علمِ عظیم کو سن کر مجلس میں موجود بعض اکابر اہلِ علم پھڑک گئے اور عرض کیا کہ یہ مضمون ہم نے کسی کتاب میں نہیں دیکھا، تو حضرت والا نے فرمایا کہ میں نے بھی متقدمینو متأخرین کی بہت سی تفاسیر دیکھیں، لیکن کسی میں اس اِشکال کا جواب مجھے نہیں ملا۔ اصل میں کسی کے دل میں اِشکال ہی نہ آیا ہوگا اس لیے ان اکابر نے جواب نہیں دیا۔ میرے دل میں اِشکال پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے یہ علمِ عظیم عطا فرمایا۔ الحمد للہ تعالٰی بڑے بڑے علماء نے اس مضمون کی تائید کی کہ بہترین سوال اور بہترین جواب ہے، فالحمد للہ تعالٰی۔) ------------------------------