آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
نفس کی بُری خواہش کو ماردو، تو تم کو اللہ ایسی زندگی دے گا کہ تم سے ایک جہاں زندہ ہوگا۔ خالی زندگی نہیں پاؤگے، زندگی ساز بنوگے۔ دوسرے مردہ دل تم سے زندگی پائیں گے، تمہارے پاس بیٹھ کر بڑے بڑے اولیاء اللہ بنیں گے۔مولانا رومی فرماتے ہیں ؏ نفسِ خود را کش جہانے زندہ کن اپنے نفس کی بُری خواہش کو مارلو، اللہ تمہیں ایسی زندگی دے گا کہ تمہاری زندگی زندگی ساز ہوگی، تمہارے ذریعے سے دوسرے اولیاء اللہ پیدا ہوں گے۔ ایک ہی مصرع کافی ہے کہ ’’نفسِ خود را کش جہانے زندہ کن‘‘ اپنے نفس کو مار دو۔نفس دشمن ہے، تو دشمن کو مارنے میں مزہ آنا چاہیےیا نہیں؟ کیا مطلب کہ گلا گھونٹ دو یا پھندہ لگالو؟ نہیں!یہ مطلب نہیں ہے بلکہ نفس کی بُری خواہش کو ماردو۔ اس میں آپ کوغم تو ہوگا لیکن یہ غم آپ کے لیے ضامنِ حیات ہوگا: وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ ؎ قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے اے عقل والو۔ قانونِ شریعت کے اندر اﷲ نے یہ برکت رکھی ہے کہ اگر ایک قاتل کو سزائے موت ملتی ہے تو پورے ملک میں قتل و خون بند ہو جاتا ہے، ایک قاتل کی پھانسی سے دوسرے ہزاروں لوگوں کی زندگی بچ جاتی ہے۔ قرآنِ پاک کی اس آیت سے یہ مسئلۂ تصوف حل ہواکہ نفس خود راکش جہانے زندہ کن، اے عقل والو! نفس سے بدلہ لو، اس کی بُری خواہش کو قتل کرو یعنی اس کو مار دو تو تمہیں ایسی حیات ملے گی کہ وہ حیات، حیاتِ عالَم کی ضامن ہوگی۔ جس طرح سے دنیا میں قتل کا قصاص ضامنِ حیاتِ انسانیت اور ضامنِ حیاتِ مملکت ہے، تو ایسے ہی تم اگر اپنے نفس سے قصاص لے لو اور اس کی بُری خواہش کوقتل کردو، تو تمہیں ایسی حیاتِ ایمانیہ عطا ہوگی کہ تمہاری برکت سے نہ جانے کتنے حیات پائیں گے اور اللہ والے بن جائیں گے۔ (مولانا عبدالحمید صاحب نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔) اب دعا کرو اللہ تعالیٰ ہم سب کو اللہ والا بنادے۔ اللہ پاک ہماری صورت کو اور سیرت کو اپنے پیار کے قابل بنادے اور ہماری روح میں اپنی ایسی محبت ڈال دے کہ جو ہمارے پاس بیٹھے وہ بھی آپ کا بن جائے، ایسا میگنٹ دے دے، ہمارے دل و جان کو ایسا جذب کرلے کہ جو ہمیں چھولے یا ہم سے مصافحہ کرلے وہ بھی جذب ہوجائے۔ دنیا کے کرنٹ کو جب کوئی چھوتا ہے تو مرجاتا ہے، لیکن اے اللہ! آپ کی محبت کے ------------------------------