آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
گناہ بھی تو تھے فَکَیْفَ لَا اَرٰھَامیں وہ بڑے بڑے گناہ نہیں دیکھ رہا ہوں۔ جب دیکھا کہ چھوٹے گناہ پر انعام مل رہا ہے تو بڑے گناہ خود پیش کررہا ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جب سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ احوال بتائے تو ہنس پڑے۔ تو یہ تین صورتیں تبدیل سیئات بالحسنات کی ہیں جن کو اختر نے تفسیر روح المعانی سے آپ کے سامنے پیش کیا۔ اس لیے کہتا ہوں کہ اﷲ کی راہ میں مایوسی نہیں ہے، اس راہ میں کوشش کرو ان شاء اﷲ تعالیٰ ایک دن ایسا آئے گا کہ آپ کے لاکھوں معاصی سب اُڑ جائیں گے اَللّٰھُمَّ اِنَّ رَحْمَتَکَ اَوْسَعُ مِنْ ذُنُوْبِیْاﷲ کی رحمت ہمارے گناہوں سے وسیع ہے غیر محدود ہے، مگر اس میں عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًاکی قید ہے کہ نیک عمل کرتے رہو، تو بہ کے بعد پھر بار بار گناہ کرنے سے مزاجِ عبدیت فاسد ہوجائے گا اور ذوقِ بندگی سے محروم ہوجاؤ گے یعنی تمہارا ذوقِ بندگی اور ذوقِ اطاعت ذوقِ شیطانی سے تبدیل ہوجائے گا۔ اس کی ایک حسیّ مثال اﷲ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمائی کہ ایک شخص جمعداروں کے محلے میں رہتا ہے جہاں پاخانے کے کنستر ہیں، اس کو کسی نے مشورہ دیا کہ تم اس ماحول میں نہ رہو، اس نے کہا کہ پھر کیا کروں؟ پچاس سال سے اسی ماحول میں ہوں، پاخانہ سونگھے بغیر ناک کو مزہ نہیں آتا، گُو کا کنستر سونگھنا مزاجِ ثانیہ بن چکا ہے، تو وہ آدمی کہتا ہے کہ ایسا کرو کہ تم کسی عطار کی خوشبودار دکان میں نوکری کرلو، یہاں سے ہجرت کرلو، اس نے ہجرت کرکے عود، شمامہ اور عنبر کی دکان پر نوکری کرلی، اب ہر وقت خوشبو سونگھ رہا ہے۔ اس نے گو سونگھنے سے نہایت احتیاط برتی، اس کے دل و دماغ میں خوشبو اتنی رچ بس گئی کہ اب وہ بھنگی پاڑے کے نام سے کانپتا تھا اورگو سونگھنے سے اسے قے ہوجاتی تھی بلکہ ہارٹ اٹیک کا اندیشہ ہوتا تھا بوجہ غایت احتیاط کے، خوشبودار دکان پر ملازمت کرنے کے بعد وہ دوبارہ کبھی بھنگی پاڑے کی طرف نہیں گیا اور نہ ہی کبھی بد بو سونگھی، یہ نوکر کامیاب ہوگیا، اس کا مزاج بدل گیا، تبدیل سیئات بالحسنات ہوگیا، اب یہ پاخانے سے غیر مانوس ہوگیا اور خوشبو کا عادی ہوگیا، نافرمانی اور اﷲ کے قہر و عذاب کے اعمال سے اس کو نفرت ہوگئی۔ اسی دکان پر ایک اور نوکر تھا جو بہت خبیث تھا، وہ کسی دوست سے بھنگی پاڑے سے ایک ڈبیہ میں گو منگا لیا کرتا تھا اور جیب میں رکھتا تھا اور ہر دو تین گھنٹے کے بعد پاخانے کی ڈبیہ نکال کر گو سونگھ لیتا تھا تا کہ جو پرانا مزہ ہے وہ باقی رہے، وہ چاہتا تھا کہ خوشبو بھی سونگھوں، اور بد بو بھی سونگھوں، تو اس کا مزاج نہیں بدلے گا، یہ کسی وقت پھر بھنگی پاڑے جائے گا اور زِنا اور بدمعاشیوں سے باز نہیں آئے گا، کیوں کہ گو کی ڈبیہ اس کی جیب میں ہے، یہ پاخانہ سونگھنے کا عادی ہے۔ خانقاہوں میں شیخ کے ساتھ رہ کر جو بدنظری نہیں چھوڑتا اس کا یہی حال