آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اللہ خالق ہے، جنت مخلوق ہے تو خالقِ جنت کی لذت مخلوق کی لذت سے کیسے افضل نہ ہوگی! جنت کی نعمتیں سر آنکھوں پر، لیکن اللہ کے نام کی لذت کو جنت کی کوئی نعمت نہیں پاسکتی سوائے دیدارِ الٰہی کے، کیوں کہ جب ان کے ذکر میں یہ مزہ ہے تو خود مذکور میں کیا مزہ ہوگا، اسی لیے جنت میں جب اللہ کا دیدار ہوگا تو کسی جنتی کو جنت یاد بھی نہ آئے گی، کسی کو ہوش نہ رہے گا کہ جنت کدھر ہے ؎ صحنِ چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا وہ آگئے تو ساری بہاروں پہ چھاگئے ترے جلوؤں کے آگے ہمتِ شرح و بیاں رکھ دی زبانِ بے نگہ رکھ دی نگاہِ بے زباں رکھ دی یہ معمولی دلیل نہیں ہے کہ اگر جنت اللہ سے زیادہ پیاری ہوتی تو جب اہلِ جنت اللہ کو دیکھتے تو اس وقت بھی جنت کو یاد کرتے کہ جلدی سے جلوۂ جاناں ختم ہو تو ہم جنت کا حلوۂ جاناں کھانے چلیں۔ معلوم ہوا کہ جلوۂ جاناں حلوۂ جاناں سے افضل ہے کیوں کہ یہ نعمت ہے، وہ نعمت دینے والا ہے۔ (احقر راقم الحروف کو مخاطب کرکے فرمایا کہ) میر صاحب! ساتھ تو رہتے ہو لیکن اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرو جو اختر دردِ دل سے پیش کررہا ہے۔ احقر نے اور ایک عالم نے جو حضرت والا سے بیعت ہیں، عرض کیا کہ ہم عہد کرتے ہیں آپ دعا فرمائیے، تو حضرت والا نے فرمایا کہ میں صرف زبان سے دعا نہیں کرتا ہوں، اپنے دل و جان سے دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ! اختر کو اور میری اولاد کو اور میرے گھر والوں کو اور میرے احبابِ حاضرین و غائبین کو اور ان کے اہل و عیال اور گھر والوں میں سے کسی ایک کو بھی محروم نہ فرما۔ ہم سب کواولیائے صدیقین کی خط ِانتہا تک پہنچا دے اور اختر کو بھی اور میری ذُرِّیات و احباب کو بھی ایسا دردِ دل عطا فرما کہ سارے عالم میں اپنے دردِ محبت کی خوشبو کے نشر کے لیے ہم سب کو قبول فرما اور اختر کی ہر آہ نثراً اور نظمًا کو ساری عالمی زبانوں میں نشر فرما دے اور یااللہ!تاقیامت میری ایک آہ کو بھی ضایع نہ ہونے دے اور اس کو تابندہ، درخشندہ اور پائندہ فرما اور حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے میری ہر آہ کو صدقۂ جاریہ بنا دے اور میرے لیے، میرے ماں باپ کے لیے، میرے اساتذۂ کرام کے لیے، میرے مشایخ عظام کے لیے اور میرے انصارِمالیہ، بدنیہ اور دعائیہ کے لیے بھی صدقۂ جاریہ بنا دے، آمین۔ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ