آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
میں آسمان کا راستہ نہیں ڈھونڈوں گا، پہلے پیر ڈھونڈوں گا، ایک مصرع میں چار دفع پیر کا نام لیا ’’پیر جویم، پیر جویم، پیر پیر‘‘ پیر ڈھونڈوں گا پیر ڈھونڈوں گا پیر پیر۔ اور فرمایا ؎ پیر باشد نردبانِ آسماں تیر پراں از کہ گردد از کماں نرد بان کے معنیٰ سیڑھی ہیں یعنی پیر آسمان تک جانے کی سیڑھی ہے اور دلیل اگلے مصرع میں ہے کہ تیر کس کے ذریعے سے اڑتا ہے؟ کمان کے ذریعے۔ اگر کمان میں تیر نہ لگاؤ تو ساری زندگی زمین پہ پڑا رہے گا۔ تو اپنی روحانیت کے اعتبار سے شیخ کمان ہوتا ہے، مریدوں کو اپنی کمان میں چڑھا کر اُڑا دیتا ہے اور آسمان تک پہنچا دیتا ہے۔ تو یہ سب مضمون پڑھنے کے بعد مجھے پیر کی جستجو ہوئی، لہٰذا میں کیوں نہ کہوں کہ میرے پیراوّل مولانا رومی ہیں جنہوں نے ہمیں پیروں تک پہنچایا۔ اب دیکھیے! آپ سے تو کبھی سال میں ایک بار ملاقات ہوجاتی ہے، لیکن میر صاحب تو ہمیشہ خانقاہ میں میرے پاس رہتے ہیں ماشاء اﷲ، اور تنخواہ بھی نہیں لیتے، یہ خاص بات ہے، ان کا کام اتنااہم ہے کہ اگر یہ دس ہزار بھی تنخواہ مانگتے تو کم تھا لیکن میر صاحب تنخواہ نہیں لیتے، پیٹ کی روٹی اور جسم کے کپڑے پر میرے پاس ہیں،اور یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کی شان کے مشابہ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ کُنْتُ اَلْزَمُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِشِبَعِ بَطْنِیْ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس رہتا تھا اپنی پیٹ کی روٹیوں پر۔ گو کبھی کبھی پیٹ پر پتھر بھی بندھتا تھا، کیوں کہ غریبی کا زمانہ تھا مگر صحابہ کے قویٰ بھی قوی تھے، آج اس زمانے میں کوئی پتھر باندھ لے تو اٹھنے ہی نہیں پائے گا، پتھر باندھے لیٹا رہے گا، لیکن الحمدﷲ میر صاحب کو پیٹ پر پتھر باندھنے کی نوبت نہیں آتی، حلوہ باندھے رہتے ہیں، شوگر کی وجہ سے نہیں کھاتے لیکن دستر خوان پر مال ہی مال رہتا ہے۔ کیا تصوف ہے اس زمانے میں کہ صوفیوں کے پیٹ پر حلوے بندھے ہوئے ہیں اور صحابہ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے، کتنا فرق ہے!یہ اﷲ کی رحمت ہے کہ اب بندے کمزور ہوچکے ہیں، ہم لوگوں کو ایک دو وقت کھانا نہ ملے تو چلنا مشکل ہے۔ بتاؤ! کیسی مزیدار مجلس ہوئی آج! یہ اﷲ کی طرف سے کرم ہے، مولانا یونس کی قسمت ہے کہ یہ رسٹن برگ نہیں آسکے تھے تو اﷲ نے آج یہاں کی مجلس عجیب وغریب کردی۔