آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ؎ اﷲ نے میزبان کے ذریعے سے کھلایا تو میزبان کو بھی دعا دو، پھر بعد میں یہ بھی کہو کہ اے اﷲ! آپ نے ہم کو کھلایااور پلایا۔ اس دعا میںمسلمین کیوں فرمایا؟ کیوں کہ بہت سے لوگ مجرمین ہو کر کھارہے ہیں: کُلُوۡا وَ تَمَتَّعُوۡا قَلِیۡلًا اِنَّکُمۡ مُّجۡرِمُوۡنَ ؎ تویہ مجرمین کے مقابلے میں ہے کہ اے ایمان والو تم مجرمانہ نہیں کھارہے ہو، حالتِ اسلام میں کھا رہے ہو، شکر ادا کرو کیوں کہ اسی دنیا میں کافر بھی کھارہے ہیں کُلُوۡا وَ تَمَتَّعُوۡا قَلِیۡلًا اِنَّکُمۡ مُّجۡرِمُوۡنَ کافر مجرمانہ کھا رہے ہیں اور تم حالتِ اسلام میں کھارہے ہو لہٰذا اس کا شکر ادا کرو۔ اور وَجَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَکے کیا معنیٰ ہیں؟ شرح مشکوٰۃ میں ہے وَجَعَلَنَا مُوَحِّدِیْنَآپ نے ہمیں تو حید کی توفیق دی کہ ہم غیر اﷲ کے پوجنے والے نہیں ہیں، توحید خفی اور جلی دونوں نصیب فرمائیں جن کی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ روٹی آپ نے بھیجی ہے: وَ فِی السَّمَآءِ رِزۡقُکُمۡ وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ ؎ آپ نے میرے آسمانی رزق کو یہاں بھیجا ہے۔ رزق ہمارا اﷲ ہی دیتا ہے مگر کسی کی میزبانی کے ذریعے دیتا ہے تو ہمارا رزق وہاں پہنچ جاتا ہے۔ تو ان کو اﷲ نے یہ عزت دی کہ انہوں نے ہم سب کو آسمانی رزق کھلایا۔ اسی لیے میرے شیخ فرماتے تھے کہ جب کھانا کھاؤ تو سمجھ لو کہ یہ اﷲ تعالیٰ نے بھیجا ہے لہٰذا جو بھیج دے کھا لو، جو پہنا دے پہن لو۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ شرح فرمائی ہے کہ آپ نے ہمیں حالتِ توحید میں کھانا کھلایا کہ ہم مشرک نہیں ہیں، بدعتی نہیں ہیں، غیر اﷲ کے پوجنے والے نہیں ہیں، ہم آپ کا رزق سمجھ کر کھارہے ہیں، آپ کے غلام ہیں،ہمارافِی السَّمَآءْجورزق تھاوہ عَلَی الْاَرْضْآگیا رِزْقُکُمْ فِی السَّمَآءْ کو ہمعَلَی الْاَرْض کھارہے ہیں، اور بعضوں کے پاس توحید ہے مگر گناہ بھی کرتے ہیں، بدنظری بھی کرتے ہیں، لونڈوں کو اور لونڈیوں کو بھی دیکھتے ہیں، حرام نظر سے نہیں بچتے تو نافرمانی کی حالت میں کھاتے ہیں، کافر تو نہیں ہیں مگر فاسقانہ ------------------------------