آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
قسم کا کوئی اختلاف نہیں۔ سارے عالم کے عاشقِ خدا ایک قوم ہیں، دلیل میں قرآنِ پاک کی آیت پیش کررہا ہوں، ملاوی کے علماء یہاں موجود ہیں، جنوبی افریقہ کے علماء موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗ میں ایک قوم پیدا کروں گا جس کی کیا شان ہوگی؟ یُحِبُّھُمْ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کریں گے وَیُحِبُّوْنَہٗاور وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے۔ تو اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کی قوم کی پہلی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرمائیں گے اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے اور بِقَوْمٍمیں جو ’’با‘‘ داخل ہے یہاَتٰی یَأْتِیْجو لازم تھا اس کو متعدی کررہا ہے۔ کیا مطلب ہوا؟ کہ ہمارے دیوانے خود سے نہیں بنتے، دیوانے بنائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ ’’با‘‘ یہ معنیٰ پیدا کررہا ہے کہ ہم لائیں گے اپنے عاشقوں کی ایک جماعت اور قوم جس کو ہم اپنا دیوانہ بنائیں گے ؎ محبت دونوں عالم میں یہی جاکر پکار آئی جسے خود یار نے چاہا اُسی کو یادِ یار آئی اللہ جس کی قسمت میں اپنا عشق اور اپنی محبت رکھتا ہے وہی اللہ کا دیوانہ ہوتا ہے، جس کو اللہ پیار کرتا ہے وہی اللہ کو پیار کرتا ہے۔ یہ بہت خوش نصیب لوگ ہیں، یہ بڑی قسمت والے ہیں، بادشاہوں کو یہ قسمت نصیب نہیں ہے، اگر اللہ کو بھولے ہوئے ہیں، تو بادشاہ زندگی بھر اپنی بادشاہت میں پریشان ہیں۔ تاجِ شاہی سر پر ہے اور سر میںدردِ سر ہے ؎ شاہوں کے سروں میں تاجِ گراں سے درد سا اکثر رہتا ہے اور اہلِ صفا کے سینوں میں اک نور کا دریا بہتا ہے اللہ والوں کے سینوں میں نورکا دریا بہہ رہا ہے اور شاہوں کے سروں میں اپوزیشن کے ڈنڈے سے دردِ سر ہو رہا ہے۔ تاجِ شاہی سر پر اور خود سلطنت کی کرسی پر اور کرسی کے نیچے سے اپوزیشن کے ڈنڈے کا فکر ہر وقت پریشانی میں مبتلا کیے ہوئے ہے، دنیا میں کہیں چین نہیں۔ بڑے سے بڑا مال دار ڈپریشن اور ٹینشن میں مبتلا ہے۔ جب ان کو ڈپریشن اور ٹینشن ہوتا ہے تب ہم فقیروں کے پاس آتے ہیں، اور خانقاہ میں ’’اِن‘‘(In) ہونے کے بعد کہتے ہیں کہ ارے میرا ڈپریشن کیا ہوا ؟ میرا ٹینشن کیا ہوا ؟ یہاں تو میں سکون پا گیا۔ یہ اللہ کے نام کی برکت ہے۔