آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
کہ ہائے پیسہ ہائے پیسہ مارا گیا؟ صدیق اکبر نے مارے خوشی کے تین دفعہ فرمایااَنَا عَنْ رَّبِّیْ رَاضٍ؎ میں اپنے رب سے راضی ہوں، خوش ہوں۔ دیکھا آپ نے کہ ان کا کیا درجہ ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ آدھا مال لائے، سیدنا عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک تہائی فوج کے سامان کے لیے پیسہ لائے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو ہاتھ میں لے کر بجایا، کیوں کہ سکے تھے اور فرمایا اے اﷲ !تیرا نبی عثمان سے راضی ہوگیا تو بھی عثمان سے راضی ہوجا۔ اچھا ایک مثال اﷲ تعالیٰ نے دل میں ڈالی کہ مان لو کسی ملک کے اندر کوئی گڑ بڑ ہونے والی ہے اور آپ نے ارادہ کرلیا کہ اس ملک سے بھاگنا ہے اور آپ کا کوئی ایمان دار دوست آپ کی کرنسی لے کر اس ملک میں پہنچا دے جس ملک میں آپ کو جانا ہے تو اس کا شکریہ ادا کرو گے یا نہیں؟ تو آپ کو جس ملک میں جانا ہے اور وہاں ہمیشہ رہنا ہے اگر میں آپ کی کرنسی لے کر اس ملک میں بھیج دوں تویہ میرا احسان ہے یا نہیں؟ ؎ جس جہاں سے ہمیشہ کو جانا اور کبھی لوٹ کر پھر نہ آنا ایسی دنیا سے کیا دل لگانا انسان کو چاہیے کہ اپنے شیخ کا احسان اور شکریہ ادا کرے اور اﷲ سے یہ کہے کہ اﷲ جس طرح مال دیا ہے دل بھی بڑا بنا دے اور اﷲ سے یہ بھی کہے کہ آپ کی محبت کا حق ہم سے صحیح طرح ادا نہیں ہوا، اگر سلطنت بھی دے دیتے تو حق ادا نہیں ہوتا، ایک سلطنت نہیں سارے عالم کی سلطنت بھی اﷲ پر فدا کر دوتو اﷲ کی محبت کا حق ادا نہیں ہوسکتا مگر کیا کہیں اﷲ تعالیٰ ہماری روح کو بالغ کر دے، کیوں کہ ایک نابالغ لڑکے سے کسی نے کہا: تمہاری شادی کرادوں؟ تو اس لڑکے نے جو نابالغ تھا پوچھا کہ شادی کروں گا تو کیا کرنا پڑے گا؟ کہا کہ روٹی کپڑا مکان دینا پڑے گا۔ اس نے کہا کہ توبہ کیجیے!آپ میری شادی نہ کرائیے۔ اس نے کہا کہ ہم کو تو پتنگ لڑانے میں اور گلی ڈنڈا کھیلنے میں مزہ آتا ہے۔ اب جب لڑکا پندرہ سال کا بالغ ہوگیا تو پھر اس سے پوچھا کہ اب تمہاری شادی کرادوں؟ تو وہ پیر دبانے لگا اور مادامکے لیے جلدی سے اس کے سر میں روغنِ بادام لگانے لگا اور ہاتھ جوڑنے لگا کہ جلدی شادی کرا دیجیے۔ ------------------------------