آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اس نے اپنے عاشق کو زہر دے دیا ؎ زہر کھلوا دیا حسینوں نے مار ڈالا تماش بینوں نے مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ بہت بڑے آدمی ہیں، شاہ خوارزم کے نواسے ہیں اور صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی اولاد میں سے ہیں، فرماتے ہیں ؎ زُلفِ جعد و مشکبار و عقل بر آخرِ او دُمِ زشت پیرِ خر جوانی میں حسینوں کو خوب انڈا کھلایا، مرنڈا پلایا، جب اس کی کالی گھنگریالی زُلف دیکھی تو پاگل ہوگئے، عقل اُڑ گئی اور کچھ مدت گزرنے کے بعد جب حسن ختم ہوگیا، شکل بگڑ گئی اور وہ بوڑھی ہوگئی اور نانی اماں بن کے آئی اور گیارہ لڑکے بھی ساتھ لائی، سب نواسے نانی اماں نانی اماں کہہ رہے ہیں اور وہ بتیسی باہر نکال کر ٹوتھ پیسٹ لگارہی ہے، گال پچکے ہوئے ہیں، بال سب سفید ہوگئے اور وہ بھی بڈھے گدھے کی جھڑی ہوئی دم جیسے۔ مولانا رومی نے پیر خر سے تشبیہ دی ہے، اس کے کیا معنیٰ ہیں؟ ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ مولانا رومی نے جوان گدھے سے کیوں تشبیہ نہیں دی، بڈھے گدھے سے کیوں تشبیہ دی؟ میں نے کہا ؎ جوانی جس کسی کی ہو بھلی معلوم ہوتی ہے گدھا بھی معشوق ہوجاتا ہے، جب گدھا جوان ہوجاتا ہے تو وہ بھی اچھا لگتا ہے، جب بڑھاپا آگیا تو شکل بندر کی طرح ہوگئی، اسے دیکھتے ہی وہاں سے بھاگے۔ میں نے پاکستان میں ایک شعر بنایا ہے کہ جب لڑکا کم عمر ہوتا ہے تو کتنا حسین معلوم ہوتا ہے، لیکن بعد میں لکڑی کی طرح ہوجاتا ہے، اس کو میں نے خشب یعنی لکڑی سے تشبیہ دی ہے، جب تک کم عمر ہوتا ہے ملائم ہوتا ہے، سب آقائے حسن کہتے ہیں، مگر زوالِ حسن کے بعد گدھے کی طرح بھاگتے ہیں۔ اب وہ شعر سنو ؎ جب ملائم خاں خشب خاں ہوگئے سارے عاشق پھر کھسک خاں ہوگئے پٹھان لوگ اس شعر سے بہت خوش ہوتے ہیں کہ واہ بڑا زبردست شعر ہے! پورے شعر میں خان ہی خان ہے۔