آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اِنْ شَاءَ اللہُ تَعَالٰی بِفَضْلِ اللہِ وَکَرَمِہٖ وَ بِعَوْنِہٖ وَ فَضْلِہٖ۔ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیںاِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ حالاں کہ یہاں اِنَّا کافی تھا نَحْنُ کا اضافہ مزید تاکید کے لیے ہے کہ قرآنِ پاک ہم ہی نے نازل کیا ہے، یہ کسی او ر کاکلام نہیں ہے۔ جو عربی گرامر جانتے ہیں ان علماء سے پوچھتا ہوں کہ بتاؤ! اِنَّاکا لفظ کافی تھا یانہیں؟دوسرا مبتدانَحْنُ کیوں نازل کیا؟ تکرارِ مبتدا سے کلام کو مؤکد بنایا جارہا ہے کہ ہم ہی نے قرآنِ پاک نازل کیا، کسی دوسرے کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اب ایک اور علمی سوال ہوتا ہے کہ اِنَّا اورنَحْنُ جمع کے صیغے ہیں اور اﷲ واحد ہے، تو اﷲ نے واحد ہوکر یہاں جمع کا لفظ کیوں نازل کیا؟ اس کا جواب علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں تَفْخِیْمًالِّشَانِہٖاﷲ کی عظمت بیان کرنے کے لیے جمع کا لفظ نازل ہوا ہے کہ یہ شاہانہ کلام ہے، دنیا میں بھی بادشاہ یہ نہیں کہتے کہ میں نے ایسا کیا ہے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایسا کیا ہے، ہم یہ حکم نافذ کرتے ہیں، بادشاہ کبھی یہ نہیں کہے گا کہ میں یہ کرتا ہوں تو جب دنیاوی بادشاہ اپنے کلام میں جمع بول کر اپنی عظمت دِکھاتے ہیں، تو اﷲ تعالیٰ بدرجہ اولیٰ اس کا حق رکھتا ہے کہ اپنے کلام کی عظمت اور اپنی شان کی عظمت بیان کرنے کے لیے جمع نازل کرے۔ یہ روح المعانی کی عبارت ہے تَفْخِیْمًا لِّشَانِہٖ ا ﷲ تعالیٰ نے اپنی عظمتِ شان اور بڑائی کے لیے جمع نازل فرمایا وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ؎ اورقرآن پاک کی حفاظت میرے ذمے ہے، سرکارِخداوندی خود حفاظت کرے گی اور قرآنِ پاک کو قیامت تک کوئی نہیں مٹا سکتا۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے پہلے جتنی کتابیں نازل فرمائیں توریت، زبور، انجیل کسی کتاب کے لیے حفظ کا حکم نہیں دیا کہ اس کو زبانی یاد کرلو، لیکن قرآنِ پاک کے لیے حکم ہوا کہ اس کو زبانی یاد کرو۔؎ اور سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی فضیلت بیان کردی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَشْرَافُ اُمَّتِیْ حَمَلَۃُ الْقُرْاٰنِ وَاَصْحَابُ اللَّیْلِ؎ کہ میری امت میں بڑے لوگ کون ہیں؟ آج کل تو لوگ اُسے وی آئی پی سمجھتے ہیں جس کے پاس مرسڈیز موٹر ------------------------------