آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
یہی میرا جام و مینا یہی میرا طورِ سینا مری وادیوں کا منظر ذرا دیکھنا سنبھل کر تو اﷲتعالیٰ ایسے ہی بندوں کو اپنی محبت نصیب فرماتے ہیں جو اپنے خونِ آرزو سے ایک دریائے خون دل میں جاری کرتے ہیں، اور مشرق کے سرخ ہونے سے اس عالم کو تو ایک آفتاب ملتا ہے، لیکن اولیاء اﷲ کے قلب کا مشرق مغرب شمال جنوب سب اپنے خونِ آرزو اور خونِ تمنا سے لال ہوجاتا ہے اور آرزوؤں کے اس دریائے خون سے ان کے قلب میں اﷲتعالیٰ کے قرب کے بے شمار آفتاب طلوع ہوتے ہیں اور ان کے سینے میں مشرق مغرب شمال جنوب ایسے چھوٹے سے نہیں ہوتے، ان کے قلب میں مشرقین ہوتے ہیں اور مشرقین کا ہر جُز مشرق ہوتا ہے اور مغربین ہوتے ہیں اور مغربین کا ہر جُز مغرب ہوتا ہے اس لیے ان کے پورے قلب میں آفتاب ہی آفتاب ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ اکیلے گنگناتے رہتے ہیں، مست رہتے ہیں، کسی بادشاہ کو خاطر میں بھی نہیں لاتے، سورج وچاند زمین وآسمان لیلائے کائنات کو بھی خاطر میں نہیں لاتے کیوں کہ ان کے قلب میں خالق نمکیاتِ لیلائے کائنات ہے اور اﷲتعالیٰ اپنی نسبتِ خاصّہ اور تجلیاتِ خاصّہ سے ان کے قلب پر متوجّہ رہتے ہیں، ہروقت نظر بچانے کے غم سے ان کے قلب پر تجلیاتِ قربِ الٰہیہ متواترہ، مسلسلہ، وافرہ، بازغہ عطا فرماتے ہیں۔ دیکھیے حج وعمرہ تو فاسقین بھی کرلیتے ہیں، داڑھی منڈاتے ہیں مگر حج کرآتے ہیں، لیکن اﷲ کو ناراض نہ کرنے کا غم، کالی گوری سے نظر بچانے کا غم، حسینوں سے دل بچانے کا یہ غم تقویٰ والے دل کی غذا ہے، یہ غم اﷲ والوں ہی کا مقدر ہے، یہ نہ نصیبِ دشمناں ہے نہ نصیبِ فاسقاں ہے، یہ صرف نصیبِ دوستاں ہے۔ اس غم سے عبادت کے انوار ان کے قلب کے ذرّہ ذرّہ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ حج و عمرہ وتلاوت و ذکر اور جملہ عبادات کے انوار بیرونِ قلب ہوتے ہیں، لیکن جب دل ٹوٹتا ہے تو یہ انوار اندرونِ قلب نافذ ہوجاتے ہیں۔ حدیث قدسی ہے: اَ نَا عِنْدَ الْمُنْکَسِرَۃِ قُلُوْبُھُمْ لِاَجْلِیْ ؎