آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ہوجائے گا۔ اس بدنظری کی بدولت بعضوں کا خاتمہ کفر پر ہوا۔ علامہ ابنِ قیم جوزی نے لکھا ہے کہ ایک نظرباز تھا، مرتے وقت جب اس کو کلمہ پڑھایا گیا تو اس کو وہی معشوق جو دل میں بسا ہوا تھا یاد آگیا اور کلمہ کے بجائے اس نے یہ شعر پڑھا ؎ رِضَاکَ اَشْھٰی اِلٰی فُؤَادِیْ مِنْ رَّحْمَۃِ الْخَالِقِ الْجَلِیْلٖ؎ اے معشوق! تیرا خوش ہوجانا مجھے اللہ کی رضا سے زیادہ محبوب ہے، نعوذباللہ! نقلِ کفر کفر نباشد۔ بتاؤ! کفر پر مرا کہ نہیں؟ اسی لیے نظر کی حفاظت کرو، ورنہ موت کی غشی میں کلمہ کے بجائے وہی صورت یاد آئے گی۔ ایک عالم کی نظر ایک عورت کی پنڈلی پر پڑگئی، چہرہ بھی نہیں دیکھا، لاکھ چاہا کہ اس کا خیال دل سے نکل جائے، لیکن اس پنڈلی نے پنڈ نہیں چھوڑا۔ آخر شیطان کا تیر ہے زہر میں بجھایا ہوا، اس سے بہت بچو۔ دیکھیے ایک بہت بڑے بزرگ علّامہ اُندلسی رحمۃ اللہ علیہ اذان دے رہے تھے، بائیں طرف جب حی علی الفلاح کہا تو ایک عیسائی لڑکی پر نظر پڑگئی۔ بس اذان چھوڑ کر اس کے پاس پہنچ گئے اور کہاکہ میں تجھ پر عاشق ہوگیا ہوں، مجھ سے شادی کرلے۔ اس نے کہا کہ پہلے عیسائی ہوجاؤ، بس عیسائی ہوگئے، ایمان ختم ہوگیا۔ آٹھ سال تک عیسائی رہے اور سور چراتے رہے، بہت لمبا قصہ ہے پھر ان کے مرید اﷲ سے رو رو کر شیخ کو مانگتے رہے کہ اے اﷲ!شیخ کو دوبارہ ایمان نصیب فرما۔ مریدوں کی دعاؤں سے اﷲ کا فضل ہوگیا اور دوبارہ ایمان عطا ہوا، لہٰذا نظر کو معمولی گناہ نہ سمجھو، ایمان تک ختم ہوجاتا ہے، اس لیے بس اپنے مولیٰ سے دل لگاؤ۔ لاکھ حسن پرستی اور عشق بازی کا مادّہ دل میں ہو، لیکن ان مرنے والوں سے دل نہ لگاؤ۔ حضرت شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں ؎ کہ سعدی راہ و رسمِ عشق بازی چناں داند کہ در بغداد تازی فرماتے ہیں کہ سعدی عشق بازی کے راستوں کو خوب جانتا ہے جیسے کہ بغداد میں عربی گھوڑوں کو پہچاننے کی صلاحیت بہت تھی، اسی طرح میں بھی حسن وعشق کی راہ ورسم کو خوب جانتا ہوں ؎ ------------------------------