محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
شرعی کمیٹی سے فسخ نکاح مسئلہ(۱۸۸): اگر کوئی عورت شوہر کی طرف سے عدم ادائیگیٔ حقوق کی بنا پر طلاق کا مطالبہ کرے، لیکن شوہرنہ طلاق دیتا ہو، نہ حقوق ادا کرتا ہو، اور یہ اندیشہ ہو کہ زوجین اللہ کے قائم کردہ حقوق کو پامال کریں گے، تو اس صورت میں وہ شوہر کو کچھ مال وغیرہ دے کر اُس سے خلع لے سکتی ہے(۱)، اگر شوہر خلع کے لیے بھی راضی نہ ہو، تو وہ غیر اسلامی عدالت سے طلاق نہیں لے سکتی ، کیوں کہ طلاق دینا صرف مرد کا حق ہے(۲)، البتہ وہ دار القضا (اسلامی عدالت) یا شرعی کمیٹی میں اپنا مقدمہ داخل کرکے نکاح کو فسخ کراسکتی ہے، اگر دار القضا یا شرعی کمیٹی نکاح کو فسخ کردے ، تونکاح فسخ ہوجائے گا،اور اس کے بعد عورت عدت گزار کر دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔(۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {فإن خفتم أن لا یقیما حدود اللہ ، فلا جناح علیہما فیما افتدت بہ} ۔ (سورۃ البقرۃ : ۲۳۹) ما في ’’ فتح القدیر للشوکاني ‘‘ : (فلا جناح علیہما فیما افتدت بہ) أي لا جناح علی الرجل في الأخذ، وعلی المرأۃ في الإعطاء ، بأن تفتدي نفسہا من ذلک النکاح ببذل شيء من المال یرضی بہ الزوج فیطلقہا لأجلہ ، وہذا ہو الخلع ، وقد ذہب الجمہور إلی جواز ذلک للزوج ، وأنہ یحل لہ الأخذ مع ذلک الخلع ، وہو الذي صرح بہ القرآن ۔ (۱/۱۹۵) ما في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : عن حبیبۃ بنت سہل الأنصاریۃ أنہا کانت تحت ثابت بن قیس بن شماس، وأن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج إلی الصبح فوجد حبیبۃ بنت سہل عند بابہ في الغلس ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’من ہذہ ؟ قالت : أنا حبیبۃ بنت سہل ، قال : ما شانک ؟ قالت : لا أنا ولا ثابت بن قیس لزوجہا ، فلما جاء ثابت بن قیس قال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ہذہ حبیبۃ=