محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
تخلیہ مسئلہ(۲۰۶): تخلیہ کہتے ہیں بائع- مبیع اور مشتری کے درمیان سے ہر قسم کی رکاوٹ (حائل) کو ختم کردے، کہ مشتری کو اس پر تصرف کرنے کا پورا اختیار حاصل ہوجائے، جب یہ بات پائی جائے تو شرعاً یوں سمجھا جائے گا کہ بائع نے مبیع مشتری کے حوالہ کردی، اور خریدار نے مبیع پر قبضہ کرلیا۔(۱) ------------------------------ =ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : (وشرط لصحتہ معرفۃ قدر) مبیع وثمن (ووصف ثمن) ۔ التنویر وشرحہ ۔ وفي الشامیۃ : تنبیہ : ظاہر کلامہ کالکنز یعطی أن معرفۃ وصف المبیع غیر شرط ۔ (۷/۳۶ ، کتاب البیوع ، مطلب ما یبطل الإیجاب سبعۃ ، دیوبند) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وللعلامۃ الشرنبلالي في رسالۃ سماہا : ’’ نفیس المتجر بشراء الدرر‘‘ حقق فیہا أن المبیع المسمی جنسہ ، لا حاجۃ فیہ إلی بیان قدرہ ولا وصفہ ، ولو غیر مشار إلیہ أو إلی المنازعۃ ، لأن الجہالۃ المانعۃ من الصحۃ تنتفي بثبوت خیار الرؤیۃ ۔ (۷/۳۷ ، کتاب البیوع ، مطلب ما یبطل الإیجاب سبعۃ ، دیوبند) (غرر کی صورتیں : ص/۲۱۴) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : أما تفسیر التسلیم والقبض فالتسلیم والقبض عندنا ہو التخلیۃ والتخلي ، وہو أن یخلی البائع بین المبیع وبین المشتری برفع الحائل بینہما علی وجہ یتمکن المشتري من التصرف فیہ فیجعل البائع مسلماً للمبیع والمشتری قابضاً لہ ۔ (۴/۴۹۸ ، کتاب البیوع ، تفسیر التسلیم والقبض ، دیوبند) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : وفي اصطلاح الفقہاء : تمکین الشخص من التصرف في الشيء دون مانع ، ففي البیع مثلاً إذا أذن البائع للمشتری فی قبض المبیع مع عدم وجود المانع حصلت التخلیۃ ، ویعتبر المشتري قابضاً للمبیع مطلقاً ۔ (۱۱/۵۶، تخلیۃ ، الفقہ الإسلامی وأدلتہ :۵/۳۳۸۸ ، معنی التسلیم أو القبض ، قبیل ؛ المبحث الرابع ، البیع الباطل والفاسد ، الفقہ الحنفي في ثوبہ الجدید :۴/۱۰۰، کتاب البیوع ، ہل التخلیۃ قبض؟)