محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیع العربون (بیعانہ) مسئلہ(۳۱۰): بیع العربون: یعنی خریدار کا بائع کو کچھ رقم ابتداء ًاس شرط پر دینا کہ اگر وہ بائع سے مطلوبہ چیز خریدے، تو یہ رقم قیمت کا حصہ بن جائے گی، لیکن اگر وہ بعد میں بائع سے مطلوبہ چیز نہ لے، تو وہ رقم بائع کی ہوگی(۱) ، حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما، حسن بصری رحمہ اللہ ،حنفیہ ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ میں سے ابو الخطاب کے نزدیک بیع العربون ناجائز ہے، ان کے علاوہ علامہ اوزاعی، لیث بن سعد، عبد العزیز بن ابی سلمہ اور سفیان ثوری رحمہم اللہ سے بھی بیع العربون کا عدمِ جواز منقول ہے۔ (۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ مرقاۃ المفاتیح ‘‘ : في النہایۃ : ہو أن یشتري السلعۃ ویدفع إلی صاحبہا شیئًا علی أنہ إن أمضی البیع حسب وإن لم یمض البیع کان لصاحب السلعۃ ولم یرجعہ المشتري۔ (۶/۷۶ ، المغني لإبن قدامۃ :۴/۳۱۲ ، بیع العربون ، الفقہ الإسلامي وأدلتہ :۵/۳۴۳۴ ، بیع العربون) (۲) ما في ’’ مرقاۃ المفاتیح ‘‘ : عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ قال : ’’ نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع العربان ‘‘ ۔ رواہ مالک وأبو داود وابن ماجۃ ۔۔۔۔۔ وہو بیع باطل عند الفقہاء لما فیہ من الشرط والغرر ۔ (۶/۷۶ ، باب المنہي عنہا من البیوع) ما في ’’ الغرر وأثرہ في الفقہ الإسلامي ‘‘ : اختلف الفقہاء في حکم بیع العربون ، فمنعہ الحنفیۃ والمالکیۃ والشافعیۃ والشیعۃ والزیدیۃ وأبو الخطاب من الحنابلۃ ، وروي المنع عن ابن عباس والحسن وقال ابن رشد والشوکاني : المنع قول الجمہور ۔ (ص/۱۰۲، المغني لإبن قدامۃ :۴/۳۱۳ ، الجامع لأحکام القرآن للقرطبي :۵/۱۵۰، أحکام القرآن لإبن العربي :۱/۴۰۸) (غرر کی صورتیں:ص/۱۳۷)