محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بونس واؤچر کی خرید وفروخت مسئلہ(۲۳۵): مال بر آمد کنندہ یعنی امپورٹر حکومت کے پاس برآمد کا ثبوت پیش کرتا ہے، جس پر حکومت اسے بونس کے نام سے انعام دیتی ہے، انعام کی رقم نقد نہیں ہوتی، بلکہ اس کی رسید ہوتی ہے، جسے بونس واؤچر کہتے ہیں، برآمد کنندہ اسے بازار میں زیادہ قیمت پر فروخت کرتا ہے، مثلاً سو روپئے کا بونس واؤچر دو سو روپئے میں ،تو چوں کہ برآمد کنندہ یعنی امپورٹر قبل القبض اس رقم کا مالک نہیں ، اس لیے اس کی خریدوفروخت جائز نہیں (۱)، نیز بونس واؤچر کی اصل رقم سے زیادہ قیمت وصول کرنا سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔ (۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : عن حکیم بن حزام قال : ’’ نہاني رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن أبیع ما لیس عندي ‘‘ ۔ (۲/۲۷۱ ، کتاب البیوع ، باب في کراہیۃ بیع ما لیس عندک) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وبطل بیع ما لیس في ملکہ ۔ (۷/۱۷۹ ،البیع الفاسد) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : (والسمک قبل الصید) أي لم یجز بیعہ لکونہ باع ما لا یملکہ فیکون باطلاً ۔ (۶/۱۱۹ ، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد ، النہر الفائق : ۳/۴۱۹ ، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد ، تبیین الحقائق : ۲/۲۷۵ ، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد) ما في ’’ تبیین الحقائق ‘‘ : ولو اجتمع في أرضہ الصید فباعہ من غیر أخذہ لا یجوز، لأنہ لم یملکہ ۔ (۴/۳۶۵ ، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد) (۲) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : عن عبادۃ بن الصامت ، عن النبي ﷺ قال : ’’ الذہب بالذہب مثلاً بمثل ، والفضۃ بالفضۃ مثلاً بمثلٍ ، والتمر بالتمر مثلاً بمثلٍ ، والملح بالملح مثلاً بمثلٍ ، والشعیر بالشعیر مثلاً بمثلٍ ، فمن زاد أو ازداد فقد أربی ‘‘ ۔ (۲/۲۷۶ ، باب ما جاء أن الحنطۃ بالحنطۃ)=