محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
تصویر دار مصلے پر نماز مسئلہ(۵۱): منقش مصلیٰ جس پر بیت اللہ، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یابیت المقدس وغیرہ کی تصویر ہو، اس پر نماز پڑھنا بلا کراہت درست ہے، اس لیے کہ وہ اصل نہیں، بلکہ محض ایک غیر ذی روح کی تصویر کے حکم میں ہے، اور غیر ذی روح کی تصویر پر نماز پڑھنا بلا کراہت درست ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایسے مصلوں کو خریدا ہی نہ جائے، تاکہ اُن کا بننا بند ہوجائے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۲) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : أو لغیر ذي روح لا یکرہ لأنہا لا تعبد ۔ در مختار ۔ وفي الشامیۃ : قال الشامي رحمہ اللہ : قولہ:(أو لغیر ذي روح) لقول ابن عباس للسائل: ’’فإن کنت لا بدّ فاعلاً فاصنع الشجر وما لا نفسہ لہ ‘‘ ۔ ]صحیح البخاري : ۱/۲۹۶ ، صحیح مسلم : ۲/۲۰۲[ قولہ : (لأنہا لا تعبد) أي ہذہ المذکورات ’’ في التنویر ‘‘ ۔ وحینئذٍ فلا یحصل التشبہ ۔ (۲/۳۶۱ ، مطلب إذا تردّد الحکم بین سنۃ وبدعۃ کان ترک السنۃ أولی) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : وقولہم : ویکرہ التصاویر المراد بہا التماثیل ، فالحاصل أن الصورۃ عام ، والتماثیل خاص، والمراد ہنا خاص ، فإن غیر ذي الروح لا یکرہ کالشجر ۔ (۲/۴۸ ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا) ما في ’’ حلبي کبیر ‘‘ : وأما صورۃ غیر ذي الروح فلا خلاف في عدم کراہۃ الصلاۃ علیہا إو إلیہا ۔ (ص/۳۵۹) ما في ’’ حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح ‘‘ : ویکرہ أن یکون فوق رأسہ أو خلفہ أو بین یدیہ أو بحذائہ صورۃ حیوان ، لأنہ یشبہ عبادتہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ إلا أن تکون صغیرۃ أو مقطوعۃ الرأس ، لأنہا لا تعبد بلا رأس أو تکون لغیر ذي روح کالشجر ، لأنہا لا تعبد ۔ (ص/۳۶۲) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ولا یکرہ تمثال غیر ذي الروح ۔ کذا في النہایۃ ۔ (۱/۱۰۷ ، بیان فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا) (فتاوی محمودیہ :۶/۶۷۰، ۶۷۴، کراچی)