محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
شرکۃ الوجوہ مسئلہ(۳۸۱): شرکاء کے پاس سرمایہ نہ ہو، بلکہ اپنی تجارتی ساکھ کی بنیاد پر اُدھار مال خرید کر فروخت کریں، اور حاصل ہونے والے نفع کو طے شدہ نسبت کے مطابق تقسیم کرلیں ،اس کو شرکۃ الوجوہ کہتے ہیں ، احناف کے نزدیک یہ شرکت جائز ہے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : (و) اما (وجوہ) ۔۔۔۔ (إن عقداہا علی أن یشتریا) ۔۔۔ (بوجوہہما) أي بسبب وجاہتہما (ویبیعا) فما حصل بالبیع یدفعان منہ ثمن ما اشتریا (بالنسیئۃ) وما بقي بینہما ۔ (۶/۳۹۰ ، کتاب الشرکۃ ، مطلب شرکۃ الوجوہ ، دیوبند ، و۶/۵۰۰ ، بیروت ، و۳/۳۴۸ ، نعمانیہ) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۱۶۸) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : وأما الشرکۃ بالوجوہ فہو أن یشترکا ولیس لہما مال لکن لہما وجاہۃ عند الناس فیقولا : اشرکنا أن تشتری بالنسیئۃ ونبیع بالنقد علی أن ما رزقہ اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ من ربح فہو بیننا علی شرط کذا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فصل : وأما بیان جواز ہذہ الأنواع الثلاثۃ فقد قال أصحابنا أنہا جائزۃ عنانا کانت أو مفاوضۃ ۔(۵/۷۴ ، کتاب الشرکۃ) ما في ’’ مختصر القدوري ‘‘ : أما شرکۃ الوجوہ فالرجلان یشترکان ولا مال لہما علی أن یشتریا لوجوہہما ویبیعا فتصح الشرکۃ علی ہذا وکل منہما وکیل الآخر فیما یشتریہ فإن شرطا أن یکون المشتری بینہما نصفان فالربح کذلک ، ولا یجوز أن یتفاضلا فیہ وإن شرطا أن المشتری بینہما أثلاثاً فالربح کذلک ۔ (ص/۴۱۱ ، کتاب الشرکۃ)