محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
رحوالہ مطلقہ اور حوالہ مقیدہ مسئلہ(۴۹۰): حوالہ مطلقہ: وہ حوالہ ہے جس میں محتال علیہ کے ذمہ محیل کا کوئی قرضہ یا کوئی چیز نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنی طرف سے محیل کا قرضہ ادا کرتا ہے۔ حوالہ مقیدہ: وہ ہے کہ اس میں محتال علیہ کے ذمہ پہلے سے محیل کا کوئی قرض یا کوئی چیز ہوتی ہے، اور اسی قرض یا چیز کی قیمت کے بقدر وہ محیل کے قرضہ کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھاتا ہے(۱)،حوالہ کی مذکورہ دونوں صورتیں درست ہیں۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدرر الأحکام في شرح غرر الحکام لملا خسرو ‘‘ : قال القاضي ملا خسرو الحنفي : اعلم أن الحوالۃ إما مطلقۃ أو مقیدۃ ، أما المطلقۃ فہي أن یرسلہا إرسالاً لا یقیدہا بدین لہ علی المحال علیہ ولا بعین لہ في یدہ أو یحیلہ علی رجل لیس لہ علیہ دین ولا في یدہ عین لہ ۔ وأما المقیدۃ فہي أن یکون للمحیل مال عند المحتال علیہ من ودیعۃ أو غصب أو علیہ دین فقال : احلت الطالب علیک بالألف الذي لہ عليّ علی أن تؤدیہا من المال الذي لي علیک وقبل المحتال علیہ ۔ (۲/۳۰۹ ، میر محمد کتب خانہ کراچي ، بحوالہ مالی معاملات پر غرر کے اثرات :ص/۲۷۹، ۲۸۰) (۲) ما في ’’ الجوہرۃ النیرۃ ‘‘ : الحوالۃ علی ضربین : (۱) مطلقۃ (۲) مقیدۃ ، فالمطلقۃ : أن یقول لرجل : احتل لہذا عني بألف درہم فیقول : احتلت ، والمقیدۃ : أن یقول : احتل بالألف التي لي علیک فیقول : احتلت وکلاہما جائزان ۔ (۲/۶۶۶، کتاب الحوالۃ) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : والجملۃ أن الحوالۃ نوعان : مطلقۃ ومقیدۃ ، فالمطلقۃ أن یحیل بالدین علی فلان ولا یقیدہ بالدین الذيعلیہ ، والمقیدۃ بأن یقیدہ بذلک والحوالۃ بکل واحدۃ من النوعین جائزۃ ، لقولہ علیہ السلام : ’’ من أحیل علی ملئٍ فلیتبع من غیر فصل ‘‘ ۔ (۷/۴۱۸ ، کتاب الحوالۃ ، فصل في شروط الرکن)