محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
عقد شرکت میں نفع کی زیادتی کی شرط مسئلہ(۳۷۶): اگر دو درزی شرکت کا عقد اس طرح کریں ؛کہ دونوں مل کر کپڑے سئیںگے، اور ملنے والا نفع (اجرت) دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کریں گے، اور ان میں ایک درزی زیادہ کام کرتا ہے، دوسرا کم، تو اس درزی کے عمل کی زیادتی سے وہ نفع کی زیادتی کا حق دار نہیں ہوگا، بلکہ نفع ان کے اس طے شدہ معاہدہ کے مطابق ہی تقسیم ہوگا(۱) ، ہاں !اگر شروع عقد میں ہی عمل کی زیادتی پر نفع کی زیادتی کی شرط لگائی گئی ہو، تو پھر اسی کے مطابق نفع کا حق دار ہوگا، اس لیے کہ نفع میں زیادتی کا حق؛ عمل یا مال یا ضمان کے سبب سے ہوتا ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفقہ الحنفي في ثوبہ الجدید ‘‘ : شرکۃ الأعمال : وتسمی أیضاً شرکۃ صنائع وأبدان ، وہي أن یتفق صانعان أم خیاطان ، أو خیاط وصباغ مثلاً علی أن یتقبلا الأعمال التي یمکن استحقاقہا ، ویکون الکسب بینہما علی ما شرطا مطلقاً ، سواء شرطا الربح علی السواء أو متفاضلا ، وسواء تساویا في العمل أو لم یتساویا فیہ ۔ (۵/۴۱ ، الشرکات ، شرکۃ الأعمال) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : وأما الشرکۃ بالأعمال فہو أن یشترکا علی عمل من الخیاطۃ أو القصارۃ أو غیرہما ، فیقولا : اشترکنا علی أن نعمل فیہ علی أن ما رزق اللّٰہ عزّ وجلّ من أجرۃ فہی بیننا علی شرط کذا ۔ (۷/۵۰۳ ، کتاب الشرکۃ) (۲) ما في ’’ المبسوط للسرخسي ‘‘ : قال : (والشریکان في العمل إذا غاب أحدہما أو مرض أو لم یعمل وعمل الآخر فالربح بینہما علی ما اشترطا) لما روي أن رجلاً جاء إلی النبي ﷺ فقال : أنا أعمل في السوق ولي شریک یصلي في المسجد ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ لعلّک برکتک منہ ‘‘ ۔ والمعنی أن استحقاق الأجر بتقبل العمل دون =