محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مدرسہ کے تختۂ سیاہ پر عبارتوں کی ترکیب وغیرہ لکھنا مسئلہ(۵۴۳): متولی اور مہتمم مدرسہ ، مدرسہ کے لیے رقم دینے والوں کی طرف سے وکیل ہے، اور وکیل کو مؤکل کی تصریح کے خلاف خرچ کرنے کا حق نہیں ہے، اس لیے اگر کسی طالب علم کو مدرسہ کی کسی چیز مثلاً؛ چوک وغیرہ استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئے، تو مہتمم مدرسہ سے اجازت لے لے، اگر وہ اجازت دیدیں تو استعمال کرے، ورنہ بلا اجازتِ مہتمم ، مدرسہ کی اشیاء کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔(۱) ------------------------------ =إرہاباً للعدو والتقدم فی إرتباط الخیل استعداداً لقتال المشرکین ، وقد روي في القوۃ أنہا الرمي ۔ (۳/۸۸ ، سورۃ الأنفال) ما في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : عن عقبۃ بن عامر الجہني یقول : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو علی المنبر یقول : {وأعدّوا لہم ما استطعتم من قوۃ} ۔ ألا ! إن القوۃ الرمي ، ألا ! إن القوۃ الرمي ، ألا ! إن القوۃ الرمي ‘‘ ۔ (ص/۳۴۰ ، کتاب الجہاد) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وہنا : الوکیل إنما یستفید التصرف من المؤکل وقد أمرہ بالدفع إلی فلان فلا یملک الدفع إلی غیرہ ۔ (۳/۱۷۷، الزکاۃ ، مطلب فی زکاۃ ثمن المبیع وفائً) ما في ’’ الفتاوی التاتارخانیۃ ‘‘ : وفي الجامع الصغیر : سئل الشیخ الإمام أبوحفص عمن دفع زکاۃ مالہ إلی رجل وأمر أن یتصدق بہا ، فأعطی ولد نفسہ الکبیر والصغیر أو امرأتہ وہم محاویج ، وفي الخانیۃ : ولا یمسک لنفسہ شیئاً جاز ، وفي الظہیریۃ : ولو أن صاحب المال قال لہ : ضع حیث شئت ، لہ أن یمسک لنفسہ ، ہذا إذا کان المأمور فقیراً ۔ (۲/۴۸ ، کتاب الزکوٰۃ ، الفصل التاسع) (فتاوی محمودیہ: ۱۵/۴۷۲) ما في ’’ شرح المجلۃ لسلیم رستم باز ‘‘ : المال الذي قبضہ الوکیل بالبیع والشراء وإیفاء=