محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
تجارتی لائسنس کی خریدو فروخت مسئلہ(۳۰۵): عصر حاضر میں اکثر و بیشتر ممالک نے تاجروں پر بغیر لائسنس کے مال کے در آمد وبرآمد پر پابندی لگا رکھی ہے، تجارتی لائسنس در حقیقت کوئی مادّی چیز نہیں ، بلکہ بیرونی ممالک سے مال کے در آمد وبرآمد (لین دین) کا ایک اجازت نامہ ہے، لیکن چونکہ اس کے حاصل کرنے میں لائسنس ہولڈر کو کافی کوشش کرنی پڑتی ہے، جس میںوقت اور روپیہ دونوں صرف ہوتے ہیں، اس لیے فقہائے کرام نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ اس طرح کے حقوق ووظائف سے دست برداری کا عوض لینا ، اور دوسرے کے ہاتھ فروخت کرنا شرعاً جائز ہے(۱)، لہٰذا تجارتی لائسنس کی خرید وفروخت درست ہوگی۔ ------------------------------ =ما في ’’ فتح القدیر لإبن الہمام ‘‘ : (فإن شرطا أکثر منہ أو أقل فالشرط باطل ویرد مثل الثمن الأول) والأصل أن الإقالۃ فسخ في حق المتعاقدین بیع جدید في حق غیرہما إلا أن یمکن جعلہ فسخا فتبطل ، وہذا عند أبي حنیفۃ ۔ (۶/۴۴۸ ،۴۴۹) (فتاوی حقانیہ:۶/۱۳۲) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدر المختار مع کشف الأستار ‘‘ : لا یجوز الإعتیاض عن الحقوق المجردۃ کحق الشفعۃ ، وعلی ہذا لا یجوز الاعتیاض عن الوظائف بالأوقاف ۔ وفیہا في آخر بحث تعارض العرف مع اللغۃ ، المذہب عدم اعتبار العرف الخاص ، لکن أفتی کثیر باعتبارہ ، وعلیہ فیفتی بجواز النزول عن الوظائف بمال ۔ (۲/۴ ، کتاب البیوع ، مکتبہ زکریا بک ڈپو دیوبند ، الدر المختار مع الشامیۃ : ۷/۳۳ ، ۳۴ ، کتاب البیوع ، بیروت) ما في ’’ شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : قال العلامۃ خالد الأتاسي : أقول : وعلی ما ذکروہ من جواز الاعتیاض عن الحقوق المجردۃ بمالٍ ینبغی أن یجوز الاعتیاض عن التعلي وعن حق الشرب وعن حق المیل بمالٍ ۔۔۔۔۔۔۔ کما جاز النزول عن الوظائف ونحوہا ۔ =