محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
راستے کو مسجد میں شامل کرنا مسئلہ(۶۳): حضراتِ فقہاء رحمہم اللہ نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ بوقتِ ضرورت راستہ کو بھی مسجد میں شامل کرسکتے ہیں، بشرطیکہ کسی راہ گذر کو تکلیف نہ ہو، اسی بنیاد پر ایسا پلاٹ جو مسلمانوں ہی کے مفاد کے لیے ہو باتفاقِ رائے مسجد میں شامل کرنا بدرجۂ اولیٰ جائز ہے ۔(۲) ------------------------------ (۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : (وجعل شيء ) أي جعل الباني شیئاً (من الطریق مسجداً) لضیقۃ ولم یضر بالمارین (جاز) لأنہما للمسلمین ۔ ’’ الدر المختار‘‘ ۔ في الشامي : قلت : إن المصنف قد تابع صاحب الدور مع أنہ في جامع الفصولین نقل أو لا جعل شیئاً من الحد طریقاً ومن الطریق مسجداً جاز ، ثم رمز لکتاب آخر لو جعل الطریق مسجداً لأجل المسجد طریقاً لأنہ لا تجوز الصلاۃ في الطریق فجاز جعلہ مسجداً ، ولا یجوز المرور في المسجد فلم یجز جعلہ طریقاً ۔ (۶/۴۴۹ ،۴۵۰ ، مطلب في جعل شيء من المسجد طریقاً) ما في ’’ فتاوی قاضي خان ‘‘ : قال الفقیہ أبوجعفر رحمہ اللہ : إن کان لا یضر ذلک بأہل الطریق جاز طریق العامۃ ہي واسع فبنی فیہ أہل المحلۃ مسجدا للعامۃ ، ولا یضر ذلک بالطریق ، قالوا : لا بأس بہ ، ہکذا روي عن أبي حنیفۃ ومحمد رحمہم اللہ تعالی ، لأن الطریق للمسلمین والمسجد لہم أیضاً ۔ (۴/۲۹۸ ، کتاب الوقف ، باب الرجل یجعل دارہ مسجداً أو خاناً أو سقایۃ أو مشربۃ) ما في ’’ مجمع الأنہر ‘‘ : ولو ضاق المسجد وبجنبہ طریق العامۃ یوسع منہ (ضاق) أي علی المصلین (منہ) أي من الطریق إذا لم یضر بأصحاب الطریق ۔ (۲/۵۹۵) (جدید مسائل کا حل : ص/۱۰۱، احسن الفتاوی :۶/۴۴۴، فتاوی محمودیہ :۱۴/۵۱۳،کراچی)