محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ایامِ تعطیلات کی تنخواہ مسئلہ(۴۷۱): ایامِ تعطیلات چوںکہ ایامِ عمل کے تابع ہوتے ہیں، اس لیے چھٹیوں کی تنخواہ مدرسینِ مدرسہ کو لینا جائز ہے، مدرسین اجیرِ خاص کی حیثیت رکھتے ہیں، اور معروف بھی یہی ہے کہ اساتذہ کی چھٹیوں کی تنخواہ وضع نہیں کی جاتی ہے، لہٰذا ’’اَلْمَعْرُوْفُ کَاْلْمَشْرُوْطِ‘‘ قاعدے کے تحت اس تنخواہ کا لینا جائز ہوگا۔(۱) ------------------------------ =(۱) ما في ’’ خلاصۃ الفتاوی ‘‘ : عقد الإجارۃ لا یجوز إلا أن یبین البدل من الجانبین جمیعًا، أما بیان المنفعۃ فبإحدی معان ثلاثۃ : بیان الوقت وہو الأجل وبیان العمل وبیان المکان ۔ (۳/۱۰۳، الفتاوی البزازیۃ علی ہامش الہندیۃ : ۵/۱۱) ما في ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : یشترط أن تکون الأجرۃ معلومۃ ۔ (۱/۵۰۳ ) (الدر المختار مع الشامیۃ :۲/۱۶۷) (فتاوی حقانیہ: ۶/۲۵۳) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : إذا استوجر استاذ لتعلیم علم کالفقہ ، والنحو، والصرف ، فإن ذکرت مدۃ کالشہر والسنۃ ، وذکرت الأجرۃ أیضاً صحت الإجارۃ، وانعقدت علی المدۃ ، حتی أن الأستاذ یستحق الأجرۃ لکونہ حاضراً ، ومہیئاً للتعلیم قرأ التلمیذ أو لم یقرأ ، لأن الأستاذ قد أصبح أجیرًا خاصًّا ۔ (۱/۶۵۴) ما في ’’ الأشباہ والنظائر لإبن نجیم ‘‘ : ومنہا : البطالۃ فی المدارس کأیام الأعیاد ، ویوم عاشوراء ، وشہر رمضان في درس الفقہ ، لم أرہا صریحۃً في کلامہم ، والمسألۃ علی وجہین ، فإن کانت مشروطۃ لم یسقط من المعلوم شيء ، وإلا فینبغي أن یلحق ببطالۃ القاضي ۔ (أشباہ) وفي شرح الحموي علی الأشباہ لإبن نجیم : قولہ : ومنہا : البطالۃ في المدارس الخ ، فی الذخیرۃ : قال أبو اللیث : من یأخذ الأجرۃ من الطّلبۃ فی یوم لا درس علیہ أرجو أن یکون جائزًا ۔ انتہی ۔ (۱/۳۳۵ ، الفن الأول في القواعد الکلیۃ - النوع الأول ، القاعدۃ السادسۃ : العادۃ محکمۃ) (احسن الفتاوی: ۷/۲۸۷، فتاوی رحیمیہ: ۹/۳۰۲)