محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
وکالت کا پیشہ مسئلہ(۴۴۶): دورِ حاضر میں وکالت کا پیشہ چوں کہ جھوٹ،فریب اور چربِ لسانی کا ذریعہ ہوتا ہے، اور حق وباطل میں کوئی لحاظ باقی نہیں رہتا، لہٰذا وکالت کا پیشہ ترک کرکے اور کوئی حلال روزی تلاش کرنا چاہیے(۱) ، ہاں! اگر اس بات کا التزام ہو کہ جو حق پر ہوگا اسی کی وکالت کرے گا، اورخود کو اس پر پورا اطمینان بھی ہو، تو پھر پیشۂ وکالت جائز ہے ، اور وکیل اس صورت میں متعینہ اجرت کا حق دار ہوگا۔(۲) ------------------------------ = من الغناء والنوح والمزامیر والطبل وشيء من اللّہو ولا علی الحداء وقراء ۃ الشعر ولا غیرہ ، ولا أجر في ذلک ، وہذا کلہ قول أبي حنیفۃ وأبي یوسف ومحمد رحمہم اللّٰہ تعالی لأنہ معصیۃ ولہو ولعب ، والاستئجار علی المعاصي واللعب لا یجوز ، لأنہ منہي عنہ ۔ (۶/۱۱۸ ، الفتاوی الہندیۃ :۴/۴۴۹) (جامع الفتاوی :۴/۱۲، فتاوی محمودیہ : ۱۷/۱۱۱،قوالی اور اس کی آمدنی، کراچی) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : اتفق الفقہاء علی عدم جواز التوکیل في المعاصي کالجنایات مثل : القتل والسرقۃ والغصب والقذف ونحو ذلک ، لأن ہذہ الأفعال محرمۃ فلا یصح فعلہا من المؤکل ولا من الوکیل ۔ (۴۵/۳۱ ، الأمور التي لا یصح التوکیل فیہا ، ثالثا : المعاصي ، وکالۃ) (۲) ما في ’’ جمع الجوامع ‘‘ : قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ﷺ :’’ آجرت نفسي من خدیجۃ سفرتین بقلوص‘‘ ۔ (۱/۲۳ ، رقم :۳ ، الہمزۃ مع الألف ، السنن الکبری للبیہقي : ۶/۱۹۵ ، الإجارۃ ، باب جواز الإجارۃ ، رقم :۱۱۶۴۲ ، سنن ابن ماجۃ :ص/۱۷۶ ، کتاب الرہون ، باب أجر الأجراء ، رقم :۲۴۴۳ ، أعطوا الأجیر أجرہ ۔ الخ) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہ ، عن النبي ﷺ قال : ’’ ما بعث اللّٰہ نبیاً إلا رعی الغنم ، فقال أصحابہ : وأنت ؟ فقال : نعم ، کنت أرعی علی قراریط=