محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
صدقۂ فطر کی پیشگی ادائیگی مسئلہ(۸۰): صدقۂ فطر کی پیشگی ادائیگیمطلقاً جائز ہے ،یارمضان مبارک کے شروع ہوجانے کے بعد؟ اس سلسلے میں اختلاف ہے، اور مطلقاً جواز کا قول راجح ہے(۱)، اگر کوئی شخص عید کے دن بھی صدقۂ فطر ادا نہ کرسکا، تووہ ساقط نہ ہوگا، بلکہ اس کے ذمہ میں باقی رہے گا۔(۲) ------------------------------ والحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ بذل المجہود ‘‘ :قال في البدائع : ولو عجل الصدقۃ علی یوم الفطر لم یذکر في ظاہر الروایۃ ، وروی الحسن عن أبي حنیفۃ أنہ یجوز التعجیل سنۃ وسنتین ، وعن خلف بن أیوب أنہ یجوز تعجیلہا إذا دخل رمضان ، ولا یجوز قبلہ ۔۔۔۔۔۔ والصحیح أنہ یجوز التعجیل مطلقاً ، وذکر السنۃ والسنتین في روایۃ الحسن لیس علی التقدیر ، بل ہو بیان لاستکثار المدۃ أي یجوز وإن کثرت المدۃ ۔ (۶/۴۳۴ ، کتاب الزکاۃ ، زکاۃ الفطر متی تؤدی) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : لکن عامۃ المتون والشروح علی صحۃ التقدیم مطلقاً وصححہ غیر واحد ، ورجّحہ في النہر ، ونقل عن الولوالجیۃ أنہ ظاہر الروایۃ ، قلت : فکان ہو المذہب۔ (۳/۲۹۰ ، کتاب الزکاۃ ، في مقدار الفطرۃ) ما في ’’ البنایۃ شرح الہدایۃ ‘‘ :ولا تفصیل بین مدۃ ومدۃ ، أي لا تفصیل في جواز تقدیم صدقۃ الفطرۃ بین مدۃ ومدۃ، بل یجوز التقدیم مطلقاً ، ہو الصحیح ۔ (۳/۵۹۵ ، کتاب الزکاۃ ، صدقۃ الفطر وقت وجوب الفطرۃ ، خلاصۃ الفتاوی :۱/۲۷۵ ، کتاب الصوم ، الفصل السابع في صدقۃ الفطر) (الفقہ الإسلامي وأدلتہ : ۳/۳۰۴۱ ، الفصل الثاني ، صدقۃ الفطر ، المبحث الثاني) (۲) ما في ’’ بذل المجہود ‘‘ : وأما وقت أدائہا فجمع العمر عند عامۃ أصحابنا ، ولا تسقط بالتأخیر عن یوم الفطر ۔ (۶/۴۳۲ ، کتاب الزکاۃ ، زکاۃ الفطر) ما في ’’ خلاصۃ الفتاوی ‘‘ : ولا یسقط بتأخیر الأداء وإن افتقر بخلاف الزکوٰۃ ۔ =