محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
شرکۃ الاعمال (شرکۃ الابدان) مسئلہ(۳۷۹): دو یا دو سے زائد افراد کوئی ایسا کاروبار شروع کریں جس میں لوگوں کے کام اُجرت پر کیے جائیں، اور جو بھی کمائی ہو اس میں تمام شرکاء شریک ہوں، مثلاً: دو دَرزی آپس میں اس بات پر اشتراک کرلیں کہ ہمارے پاس جو بھی کپڑا آئیگا ہم اسے مل کر سئیں گے ، اور جو اجرت ہوگی اسے آدھا آدھا تقسیم کرلیں گے۔ مختلف پیشہ ور لوگ جیسے ڈاکٹر، انجینئر، کارپینٹر وغیرہ بھی اس طرح کی شرکت کرسکتے ہیں، اسے شرکت ابدان، شرکت صنائع اور شرکت تقبُّل بھی کہا جاتا ہے(۱)،حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس طرح کی شرکت جائز ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : شرکۃ الأعمال : أن یشترک اثنان علی أن یتقبلا في ذمتہما عملا من الأعمال ، ویکون الکسب بینہما کالخیاطۃ والحدادۃ ونحوہا ۔ (۵/۳۸۸۷ ، تعریف شرکۃ الأعمال) (شرکت ومضاربت عصر حاضر میں:ص/۱۸۲، فقہ حنفی قرآن وحدیث کی روشنی میں :۲/۱۰۰) ما في ’’ الفقہ الحنفي في ثوبہ الجدید ‘‘ : شرکۃ الأعمال : أن یتفق صانعان خیاطان أو خیاط وصباغ مثلاً علی أن یتقبلا الأعمال التي یمکن استحقاقہا ویکون الکسب بینہما علی ما شرطا ۔ (۵/۴۱ ، شرکۃ الأعمال ، بدائع الصنائع : ۵/۷۴ ، کتاب الشرکۃ) (۲) ما في ’’ منہاج المسلم ‘‘ : والأصل فی جوازہا ما رواہ أبو داود من أن عبد اللّٰہ وسعدا وعمارا اشترکوا یوم بدر فیما یحصلون علیہ من أموال المشرکین فلم یجئ عمار وعبد اللّٰہ بشيء وجاء سعد بأسیرین فأشرک بینہم النبي ﷺ وکان ذلک قبل مشروعیۃ قسمۃ الغنائم ۔ (ص/۳۰۰ ، شرکۃ الأبدان) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : شرکۃ الأعمال جائزۃ عند المالکیۃ والحنفیۃ والحنابلۃ والزیدیۃ ، لأن المقصود منہا تحصیل الربح وہو ممکن بالتوکیل ۔ (۵/۳۸۸۷ ، بدائع الصنائع :۵/۷۶ ، المغني لإبن قدامۃ : ۵/۱۱۱) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۱۷۰)