محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
غیر مسلموں کے ساتھ کھانا پینا مسئلہ(۵۸۶): غیر مسلموں کے ساتھ کھانا پینا مکروہ ہے، اگر کسی مجبوری سے کہیں ایک دو دفعہ مبتلا ہوجائیں تو گناہ نہیں، یہ حکم اُس وقت ہے جب کہ ان کا کھانا اور برتن پاک ہوں، یا ان کی ناپاکی کا علم نہ ہو(۱)، اور اگر یہ علم ہو کہ ان کے برتن ناپاک ہیں، یا کھانا حرام مردار وغیرہ ہے، تو اب ان کے ساتھ کھانا ہرگز درست نہیں۔(۲) ------------------------------ = سہو لأن الحل والحرمۃ من الدیانات ، ولا یقبل قول الکافر في الدیانات ۔ (۷/۲۷ ، کتاب الکراہیۃ ، فصل في الأکل الشرب ، بیروت ، البحر الرائق :۸/۳۴۳ ، کتاب الکراہیۃ ، فصل في الأکل والشرب) ما في ’’ الدر المختار مع تنویر الأبصار وجامع البحار ‘‘ : وأصلہ أن خبر الکافر مقبول بالإجماع في المعاملات لا في الدیانات ، وعلیہ یحمل قول ’’ الکنز ‘‘ : ویقبل قول الکافر في الحل والحرمۃ ؛ یعني الحاصلین في ضمن المعاملات ، لا مطلق الحل والحرمۃ کما توہمہ الزیلعي ۔ (ص/۶۵۱ ، کتاب الحظر والإباحۃ ، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : عن أبي الحوراء السعید قال : قلت لحسن بن علي رضي اللّٰہ تعالی عنہما : ما حفظت من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قال : حفظت من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ دع ما یریبک إلا ما لا یریبک ‘‘ ۔ (۲/۷۸ ، قبیل أبواب صفۃ الجنۃ) ما في ’’ المقاصد الشرعیۃ للخادمي ‘‘ : إن الوسیلۃ أو الذریعۃ تکون محرمۃ إذا کان المقصد محرماً ، وتکون واجبۃً إذا کان المقصد واجباً ۔ (ص/۴۶) (فتاوی محمودیہ :۱۸/۵۰،۵۱،کراچی) ما في ’’ قواعد الفقہ ‘‘ : ’’ درء المفاسد أولی من جلب المنافع ‘‘ ۔ (ص/۸۱ ، قاعدۃ :۱۳۲) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ خلاصۃ الفتاوی ‘‘ : والأکل والشرب في أواني المشرکین مکروہ ، ولا بأس بطعام المجوس إلا ذبیحتہم ، وفي الأکل معہم ، وعن الحاکم عبد الرحمن : لو ابتلی بہ المسلم مرۃ أو مرتین لا بأس بہ ، أما الدوام علیہ فمکروہ ۔ =