محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
دواخانہ کی تعمیر میں زکوٰۃ یا سودی رقم مسئلہ(۷۸): دواخانہ کی تعمیر میں زکوٰۃ کی رقم استعمال کرنا درست نہیں، اگر استعمال کی جائے تو لوگوں کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی(۱)، اسی طرح سودی رقم بھی استعمال کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر للہ رقم نہ ملتی ہو، اور تعمیری کام رُکا ہوا ہو، تو اِس صورت میں رفاہِ عام (دواخانہ کی عمارت جس کو مسلم وغیر مسلم سب استعمال کریں گے) میں سودی رقم لگانے کی گنجائش ہے(۲)، زکوۃ کی رقم استعمال نہیں کرسکتے۔ ------------------------------ =(۳/۱۷۶ ، کتاب الزکاۃ ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفاء) ما في ’’ الفتاوی الولوالجیۃ ‘‘ : ولا یجوز الحج والعتق وبناء المسجد من زکاۃ مالہ لأنہم مامورون بالإتیان للفقیر ، وہو عبارۃ عن التملیک من الفقیر ولم یوجد ۔ (۱/۱۸۰ ، الفصل الثاني) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : وأشار المصنف إلی أنہ لا یخرج بعزل ما وجب عن العہدۃ بل لا بد من الأداء إلی الفقیر۔ (۲/۳۶۹ ، کتاب الزکاۃ) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : ویشترط أن یکون الصرف (تملیکاً) لا إباحۃ کما مر (لا) یصرف (إلی بناء) نحو (مسجد و) ۔۔۔۔۔ قولہ : (نحو مسجد) کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد وکل ما لاتملیک فیہ ۔ (۳/۲۶۳، باب المصرف، کتاب الزکوٰۃ ، الفتاوی الہندیۃ :۱/۱۸۸، باب المصرف ، تبیین الحقائق :۲/۲۲۰، باب المصرف ، البحر الرائق :۲/۱۲۰) (۲) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : وعلی ہذا یخرج صرف الزکاۃ إلی وجوہ البر من بناء المساجد والرباطات والسقایات، وإصلاح القناطر، وتکفین الموتی ودفنہم أنہ لایجوز، لأنہ لم یوجد التملیک أصلاً ۔ (۲/۱۴۲، کتاب الزکوٰۃ، فصل فی رکن الزکوٰۃ) ما في ’’ فتاوی معاصرۃ للدکتور یوسف القرضاوي ‘‘ : الرابع : أن یصرف فی مصارف الخیر، أی للفقراء والمساکین والیتامیٰ وابن السبیل ، وللمؤسسات الخیریۃ الإسلامیۃ =