محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
متعین قیمت کا معلوم نہ ہونا مسئلہ(۳۰۰): اگر کسی چیز کی قیمت اس طور پر ذکر کی جائے کہ متعاقدین یا ان میں سے کسی ایک کو متعین قیمت کا علم نہ ہو سکے، مثلاً؛ خریدار یوں کہے کہ فلاں کتاب کو اس کی بازاری قیمت پر خریدتا ہوں، جب کہ اسے اس کتاب کی بازاری قیمت معلوم نہیں، تو یہ صورت ائمۂ اربعہ کے نزدیک عقدِ فاسد ہے، بشرطیکہ مجلسِ عقد کے ختم ہونے تک اس کی اصل قیمت کا علم نہ ہوسکے(۱)، البتہ حنفیہ کے یہاں یہ تفصیل ہے کہ اگر ایسا عقد ان چیزوں میں ہو جن کی مقدار تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے، اور قیمت بھی تقریباً ایک ہی ہوتی ہے، جیسے روٹی یا گوشت وغیرہ، تو اس صورت میں بازاری قیمت پر بیع جائز ہوگی(۲)، کیوں کہ ان کی قیمت عام طور پر متعین ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بیع کی اس صورت میں جہالت و غرر کی خرابی لازم نہیں آئے گی، اور بیع جائز ہوگی۔ ------------------------------ =(۴/۵۴۰ ، کتاب البیوع) ما في ’’ فتح الباري ‘‘ : والمنع في الصور الثلاث للجہالۃ في الأجل ۔ (۴/۳۵۸ ، کتاب البیوع ، باب بیع الغرر ، دار المعرفۃ بیروت) (۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {واِن کان ذو عُسرۃٍ فنَظِرۃٌ الی میسَرۃٍ واَن تصدّقوا خیرٌ لکم اِن کنتم تعلمون} ۔ (سورۃ البقرۃ :۲۸۰) (غرر کی صورتیں:ص/۲۷۳، مرضی کی مدت ، جواز کی صورت) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ المبسوط ‘‘ : فقال : قد اخذت منک ہذا بمثل ما یبیع الناس فہذا فاسد ، لو قال: أخذت منک بمثل ما أخذ فلان من الثمن فہو فاسد ۔ (۵/۹۰، کتاب البیوع)=