محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کافرہ عورت کو جبراً مسلمان بناکر اس سے نکاح مسئلہ(۱۴۸): کسی بھی غیر مسلم کافرہ، مشرکہ، عیسائیہ، یہودیہ عورت کو اسلام لانے پر مجبور کرنا جائز نہیں ہے(۱)، البتہ اگر وہ مجبور ہوکر اسلام قبول کرلے، تو اس کااسلام معتبر ہوگا(۲)، اور اس کے ساتھ نکاح کرنا درست ہوگا(۳)، لیکن اگر نکاح کے بعد قاضی کے سامنے یہ بات ثابت ہوجائے کہ یہ نکاح ناحق اِکراہ کے ذریعہ کیا گیاہے، تو قاضی اس نکاح کو فسخ کرسکتا ہے، اس لیے کہ ناحق اِکراہ ظلم ہے(۴)، اور رفعِ ظلم قاضی کے فرائض میں داخل ہے۔(۵) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {لٓا اِکراہَ فِي الدِّینِ} ۔ (سورۃ البقرۃ :۲۵۶) (۲) ما في ’’ فتاوی قاضي خان ‘‘ : وإذا اجبر الکافر علی الإسلام فأسلم صح إسلامہ ۔ (۴/۴۱۶ ، کتاب الإکراہ) (۳) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وأما ما ذکر من أن نکاح المکرہ صحیح إن کان ہو الرجل ، وإن کان المرأۃ فہو فاسد ، فلم أر من ذکرہ وإن أوہم کلام القہستاني السابق ذلک بل عبارتہم مطلقۃ فی أن نکاح المکرہ صحیح کطلاقہ وعتقہ مما یصح مع الہزل ولفظ المکرہ شامل للرجل والمرأۃ ، فمن ادعی التخصیص فعلیہ إثباتہ بالنقل الصریح ۔ (۴/۸۷ ، کتاب النکاح) ما في ’’ فتاوی قاضي خان ‘‘ : إذا اکرہ علی النکاح فتزوج صح نکاحہ عندنا ۔ (۴/۴۱۶ ، کتاب الإکراہ) (۴) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : الإکراہ بغیر حق ہو الإکراہ ظلمًا ، أو الإکراہ المحرم ، لتحریم وسیلتہ ، أو لتحریم المطلوب بہ ۔ (۶/۱۰۴، کتاب الإکراہ) (۵) ما في ’’ المبسوط للسرخسي ‘‘ : وہذا لأن فی القضاء بالحق إظہار العدل وبالعدل قامت السّمٰوٰات والأرض ورفع الظلم وہو ما یدعو إلیہ عقل کل عاقل وإنصاف المظلوم =