محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اقرباء کی طرف سے صدقۂ فطر مسئلہ(۸۲): جوخویش واقارب اپنے بیرون ملک رہائش پذیر رشتہ داروں کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرتے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ ان کی طرف سے عمدہ قسم کے نصف صاع، یعنی ایک کلو ۶۳۶؍گرام ،احتیاطاً پونے دو کلو گیہوں یا اس کا آٹا، یا اُس کا ستو، یا ایک صاع، یعنی تین کلو ۲۷۲ ؍گرام ،احتیاطًا ساڑھے تین کلوکشمش، کھجور، یا جَوسے صدقۂ فطر ادا کریں، یا بیرون ملک کی قیمت کے حساب سے مذکورہ چیزوں میں سے کسی ایک چیز کی قیمت ادا کریں(۱)، اگر یہاں کی قیمت زیادہ ہے تو یہاں کے حساب سے ادا کریں، تاکہ غریبوں کا فائدہ ہو۔(۲) ------------------------------ =ما في ’’ الفتاوی التاتارخانیۃ ‘‘ : إذا کان للصغیر مال فصدقۃ فطرہ عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف تجب علی الصغیر ۔ (۲/۱۴۱ ، کتاب الصوم ، الفصل الثالث عشر في صدقۃ الفطر) ما في ’’ المبسوط للسرخسي ‘‘ : وکذا یؤدي عن نفسہ فکذلک یؤدي عن أولادہ الصغار ۔۔۔ وإن کان للولد الصغیر مال أدی عنہ أبوہ من مال الصغیر في قول أبي حنیفۃ وأبي یوسف رحمہما اللہ تعالی ، ولیس علی الرجل أن یؤدي عن أولادہ الکبار ، ولا یؤدي الزوج زکاۃ الفطر عن زوجتہ ۔ (۳/۱۱۳ - ۱۱۶ ، کتاب الصوم ، باب صدقۃ الفطر) والحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : نصف صاع من برّ أو دقیقہ أو سویقہ أو زبیب أو صاع تمر أو شعیر ۔ (۳/۲۸۶ ، کتاب الزکاۃ ، باب صدقۃ الفطر ، کذا في البحر الرائق : ۲/۴۴۳، کتاب الزکاۃ ، باب صدقۃ الفطر، کذا في تبیین الحقائق :۲/۱۳۷ ، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر ، کذا في مجمع الأنہر : ۱/۳۳۷ ، کتاب الزکاۃ ، باب صدقۃ الفطر) (۲) ما في ’’ مجمع الأنہر‘‘ : وفي الظہیریۃ : إن الفتوی علی أن القیمۃ أفضل ، لکن لا خلاف بین النقلین في الحقیقۃ ، لأنہما نظراً لما ہو أکثر نفعاً وأدفع للحاجۃ ، واللہ تعالی أعلم ۔=