محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
گھر ،گھوڑے اورعورت میں نحوست مسئلہ(۱۱): اسلام میں کسی چیز کے منحوس ہونے کا تصور واعتقاد درست نہیں، اور احادیث میں جو آیا ہے کہ : ’’گھر، عورت اور گھوڑے میں نحوست ہے ‘‘ (۱)، محدثین نے اس کے متعدد معانی بیان کیے ہیں، چنانچہ(فتح الباری ، عمدۃ القاری اور مرقاۃ المفاتیح وغیرہ شروح کتب حدیث میں یہ تفاصیل دیکھی جاسکتی ہیں) ، حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں جس توجیہ کی اَولویت (فوقیت)کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ضعیف الاعتقاد لوگوں کے اعتقاد کی حفاظت کے لیے ہے، مطلب یہ ہے کہ جس کو اپنے گھر یا گھوڑے یا بیوی کے متعلق دل میں کدورت ہو، اس کو ان سے مفارَقت کرلینی چاہیے، تاکہ اگر تقدیر کے فیصلہ کے مطابق کوئی مصیبت آجائے ،تو کم از کم آدمی کا اعتقاد تو محفوظ رہے؛ کہ اپنی مصیبت کا سبب ان چیزوں کو قرار نہ دے سکے، کیوں کہ ان سے مفارقت کی جاچکی ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ صحیح مسلم ‘‘ : عن عبد اللہ بن عمر أن رسول اللہ ﷺ قال : ’’ الشؤم في الدار والمرأۃ والفرس ‘‘ ۔ (رقم :۳۷۵۹ ، باب الطیرۃ والفأل وما یکون فیہ الشؤم) (۲) ما في ’’ فتح الباری ‘‘ : والمراد بذلک حسم المادۃ وسد الذریعۃ لئلا یوافق شيء من ذلک القدر فیعتقد من وقع لہ أن ذلک من العدوی أو الطیرۃ فیقع فی اعتقادہ ما نہی عن اعتقادہ فأشیر إلی اجتناب مثل ذلک والطریق فیمن وقع لہ ذلک فی الدار مثلا التبادر إلی التحول منہا لأنہ متی استمر فیہا ربما حملہ ذلک علی اعتقاد صحۃ الطیرۃ والتشاؤم ۔ (۶/۷۸) (فتاویٰ محمودیہ: ۱/۲۳۲،۲۳۳، کراچی)