محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کو یقین ہے کہ سوائے عضو انسانی کی پیوند کاری کے کوئی راستہ اس کی جان بچانے کا نہیں ہے، اور عضو انسانی کی پیوندکاری کی صورت میں ماہر اطباء کو ظن غالب ہے کہ اس کی جان بچ جائے گی، اور متبادل عضو انسانی اس مریض کے لیے فراہم ہے، تو ایسی ضرورت و مجبوری کی حالت میں عضو انسانی کی پیوندکاری کراکر اپنی جان بچانے کی تدبیر کرنا مریض کے لیے مباح ہوگا۔(۴)نعش کی خریدو فروخت مسئلہ(۶۱۶):نعش کی خریدو فروخت کرنا شرعاً جائز ودرست نہیں ہے۔(۵) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : =(۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ولقد کرّمنا بنيٓ اٰدم} ۔ (سورۃ بني اسرائیل :۷۰) (۳) ما في ’’ شرح کتاب السیر الکبیر ‘‘ : والآدمي محترم بعد موتہ علی ما کان علیہ فی حیاتہ فکما یحرم التداوي بشيء من الآدمي الحي إکراماً لہ فکذلک لا یجوز التداوی بعظم المیت ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ کسر عظم المیت ککسر عظم الحي ‘‘ ۔ (۱/۹۲) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : (وشعر الإنسان والإنتفاع بہ) أی لم یجز بیعہ والإنتفاع بہ لأن الآدمی مکرم غیر مبتذل فلا یجوز أن یکون شيء من أجزائہ مہاناً مبتذلاً ۔۔۔۔۔ وصرح فی فتح القدیر بأن الآدمي مکرم وإن کان کافراً ۔ (۶/۱۳۳، کتاب البیع ، باب البیع الفاسد) (۴) ما في ’’ قواعد الفقہ ‘‘ : الضرورات تبیح المحظورات ۔ (ص/۸۹ ، القاعدۃ :۱۷۰) (نئے مسائل اور اسلامک فقہ اکیڈمی[انڈیا] کے فیصلے:ص/۱۹۷، ۱۹۸) الحجۃ علی ما قلنا : (۵) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ولقد کرّمنا بنيٓ اٰدم وحملنٰہم في البرّ والبحر} ۔ (سورۃ الإسراء :۷۰) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : ولا یجوز بیع شعور الإنسان ولا الانتفاع بہ لأن الآدمي مکرم لا مبتذل =