محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
قلی کا زیادہ قیمت لینا مسئلہ(۴۶۷):آج کل ریلوے اسٹیشنوں پر قلیوں کی بھر ماررہتی ہے، وہ لوگوں کا سامان اٹھاتے ہیں، اس میں کبھی کسی سے زیادہ رقم لیتے ہیں، اور کسی سے کچھ کم، جب کہ سرکار کی طرف سے یہ متعین ہوتا ہے کہ کتنے سامان پر کتنی قیمت لیں گے، تو ریاستی جائز قوانین کی پابندی کرنا شرعاً ضروری ہے(۱)، اس کی خلاف ورزی کرنا اپنے جان و مال کو خطرہ میں ڈالنے کے مترادف ہے، جس سے شریعت نے منع کیا ہے(۲)، لیکن اجارہ چونکہ مستاجر اور اجیر (مالک ومزدور)کے درمیان ان کی رضامندی سے طے شدہ عقد کا نام ہے، اس میں کسی ثالث (تیسرے فریق)کی دخل اندازی سے ا س کی صحت پر (جب کہ یہ اجارہ صحیح ہو) کوئی اثر نہیں پڑتا(۳)، لہٰذا قلی لوگوں کا زیادہ رقم لینا درست ہے، اور لی گئی رقم بھی حلال ہے ۔ ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : (أمر السلطان إنما ینفذہ) أی یتبع ولا تجوز مخالفتہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب البحر ذکر ناقلاً عن أئمتنا أن طاعۃ الإمام في غیر معصیۃ واجبۃ ، فلو أمر بصوم یوم وجب ، وقدمنا أن السلطان لو حکم بین الخصمین ینفذ في الأصح ۔ (۸/۱۰۶، کتاب القضاء ، مطلب طاعۃ الإمام واجبۃ) (۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ولا تلقوا بأیدیکم إلی التہلکۃ} ۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۹۵) (۳) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وأما شرائط الصحۃ فمنہا رضا المتعاقدین ومنہا أن یکون المعقود علیہ وہو المنفعۃ معلوماً علماً یمنع المنازعۃ ، فإن کان مجہولاً جہالۃ مفضیۃ إلی المنازعۃ یمنع صحۃ العقد وإلا فلا ۔ (۴/۴۱۱ ، کتاب الإجارۃ)=