محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
سودی رقم انکم ٹیکس میں ادا کرنا مسئلہ(۳۳۳): گورنمنٹ بینک سے ملی ہوئی سودکی رقم انکم ٹیکس اور ہر ایسے غیر شرعی ٹیکس میں دے سکتے ہیں، جو مرکزی حکومت کے ہیں اور ایسے ٹیکس میں دینا درست نہ ہوگا جو مرکزی حکومت کے نہیں ہیں، اور جو بھی حرام مال ہو اس کے متعلق بھی اصل حکم یہی ہے کہ جس کا وہ مال ہے اس کی ملک میں کسی تدبیر سے لوٹادے ، اور جب اصل مالک کی ملک میں نہ پہنچاسکے، تو خود کسی کام میں استعمال نہ کرے، بلکہ اس کے وبال سے بچنے کے لیے اصل مالک کی طرف سے بنیتِ صدقہ کسی مستحق کو دیدے۔(۱) ------------------------------ =والکوبۃ ، وقال : ’’کل مسکر حرام ‘‘ ۔ (۲/۱۲۷۶ ،باب التصاویر ، رقم : ۴۵۰۳) ما في ’’ شرح الطیبي ‘‘ : اختلفوا في إباحۃ اللعب بالشطرنج ، فرخص فیہ بعضہم ، لأنہ قد یتبصر بہ في أمر الحرب ، ومکیدۃ العدو ، ولکن بثلاث شرائط : أن لا یقامر ، ولا یؤخر الصلاۃ عن وقتہا ، وأن یحفظ لسانہ عن الخناء والفحش ۔ (۸/۳۰۶ ، رقم : ۴۵۱۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : (إن شرط المال) في المسابقۃ (من جانب واحد ، وحرم لو شرط) فیہا (من جانبین) لأنہ یصیر قماراً (إلا إذا دخلا ثالثاً) ۔ الدر المختار ۔ قولہ : (قماراً) ۔۔۔۔۔۔۔ سمي القمار قماراً ، لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوّز أن یذہب مالہ إلی مالہ ، ویجوّز أن یستفید مال صاحبہ ، وہو حرام بالنص ۔ (۹/۴۹۲ ،الحظر والإباحۃ ، فصل في البیع) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : والسبیل في المعاصي ردّہا ، وذلک ہہنا بردّ المأخوذ إن تمکن ردّہ بأن عرف صاحبہ، وبالتصدق بہ إن لم یعرفہ ، لیصل إلیہ نفع مالہ ، إن کان لا یصل إلیہ عین مالہ ۔ (۵/۳۴۹ ، کتاب الکراہیۃ ، الباب الخامس عشر في الکسب ، رد المحتار : ۹/۴۷۰ ، کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل في البیع) (جدید مسائل کا حل :ص/۴۴۲) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ بذل المجہود ‘‘ : وأما إذا کان عند رجل مال خبیث ، فإما إن أمکنہ بعقد فاسد ، أو حصل لہ بغیر عقد ، ولا یمکنہ أن یردّ إلی مالکہ ، ویرید أن یدفع مظلمتہ عن نفسہ فلیس =