محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
شیئرز کو بطور رہن رکھنا مسئلہ(۵۱۵): فقہائے احناف رحمہم اللہ نے مشاع چیز کے رہن رکھنے کو ناجائز قرار دیا ہے(۱)، لیکن ا ئمۂ ثلاثہ (امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ) اس کے جواز کے قائل ہیں، اور ان کے دلائل بھی قوی ومضبوط ہیں، لہٰذا شیئرز کو بطورِ رہن رکھنا جائز ہونا چاہیے، اور’’المجلس الشرعي البحرین‘‘ نے اسلامی مالیاتی اداروں کو مشاع چیز کے رہن رکھنے کی اجازت دی ہے، البتہ یہ شرط عائد کی ہے کہ مشاع چیز کے اندر حصۂ مرہونہ کی تحدید ضروری ہے، یعنی یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس کا اتنے فیصد حصہ رہن ہے ۔(۲) ------------------------------ =ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : یجوز للإنسان کما بان سابقاً أن یرہن ملک الغیر بإذنہ کالمستعار والمستأجر ، ولیس لأحد رہن ملک غیرہ إلا بولایۃ علیہ ، فإذا لم یکن لہ ولایۃ في الرہن ، وسلم المرہون إلی المرتہن کان بہذا التسلیم متعدیاً وغاصباً ۔ (۶/۴۲۶۵ ، رہن ملک الغیر) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۲۴۷) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وإنما لم یجز لأن موجب الرہن الحبس الدائم ، وفي المشاع یفوت الدوام لأنہ لا بد من المہایاۃ فیصیر کأنہ قال : رہنتک یوماً دون یوم ، وتمامہ في الہدایۃ ۔ (۱۰/۷۹ ، باب ما یجوز ارتہانہ وما لا یجوز ، بدائع الصنائع :۵/۲۰۵ ، الہدایۃ :۲/۵۰۸) (۲) ما في ’’ المغنی لإبن قدامۃ ‘‘ : فصل : وکل عین جاز بیعہا جاز رہنہا لأن مقصود الرہن الاستیثاق بالدین في استیفائہ من ثمن الرہن إن تعذر استیفائہ من ذمۃ الراہن ، وہذا یتحقق في کل عین جاز بیعہا ، ولأن ما کان محلاً للبیع کان محلاً لحکمۃ الرہن ومحل الشيء محل الحکمۃ إلا أن یمنع مانع من ثبوتہ أو یفوت شرط فینتفی الحکم لإنتفائہ فیصح رہن المشاع لذلک ، وبہ قال ابن أبي لیلی ومالک والبیہقي والأوزاعي وسواء والعنبري=