محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
میڈیکل سرجری مسئلہ(۶۴۱): میڈیکل سرجری (Medical Surgery)مطلقاً جائز نہیں ہے، بلکہ اس کے جواز کی چند شرطیں ہیں: (۱) سرجری مشروع ہو،(۲) مریض اس کا محتاج ہو، (۳) مریض کی اجازت سے ہو، (۴) سرجری کرنے والا ڈاکٹر اس کا اہل ہو، (۵) سرجری کی کامیابی کا غالب گمان ہو، (۶) اس کا کوئی ایسا بدل موجود نہ ہو جو اس سے کم تکلیف دہ ہو، (۷) اس کے کرنے پر مصلحت مرتب ہو، (۸) اور سرجری پر مرتب ہونے والا ضرر مرض کے ضرر سے زیادہ نہ ہو، یہ تمام شرطیں پائی جائیں، تو میڈیکل سرجری جائز ہے، ورنہ نہیں۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ فقہ النوازل ‘‘ : رابعاً : یشترط لجواز فعل الجراحۃ الطبیۃ ثمانیۃ شروط : أن تکون مشروعۃ ، ویحتاج إلیہا المریض ، ویأذن بفعلہا ، وأن یکون الطبیب الجراح أہلاً لفعلہا ، ویغلب علی ظنہ نجاحہا ، ولا یوجد البدیل الذی ہو أخف ضرراً منہا ، وان تترتب المصلحۃ علی فعلہا ، ولا یترتب علیہا ضرر أعظم من ضرر المرض الجراحی ۔ (۴/۲۱۴ ، أحکام الجراحۃ ، وثیقۃ رقم :۲۷۵) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : إذا أراد الرجل أن یقطع اصبعاً زائدۃ أو شیئاً آخر ، قال نصیر رحمہ اللہ : إن کان الغالب علی من قطع مثل ذلک الہلاک فإنہ لا یفعل ، وإن کان الغالب ہو النجاۃ فہو في سعۃ من ذلک ، رجل أو امرأۃ قطع الأصبع الزائدۃ من ولدہ ، قال بعضہم : لا یضمن ولہما ولایۃ المعالجۃ ، وہو المختار ، ولو فعل ذلک غیر الأب والأم فہلک کان ضامناً ، والأب والأم إنما یملکان ذلک إذا کان لا یخاف التعدي والوہن في الید ۔ کذا في الظہیریۃ ۔ (۵/۳۶۰ ، الباب الحادی والعشرون فیما یسع من جراحات الخ ، أحکام تجمیل النساء :ص/۳۹۲ ، أحکام الجراحۃ الطبیۃ :ص/۱۰۳) (فقہ القضایا الطبیۃ المعاصرۃ :ص/۵۳۳)