محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
صدقۂ فطر کا مصرف مسئلہ(۸۳): صدقۂ فطر کا مصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے، یعنی جہاں جہاں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، اُن جگہوں میں صدقۂ فطر دینا بھی جائز ہے، اور جہاں جہاں زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے، اُن جگہوں میں صدقۂ فطر دینا بھی جائز نہیں ہے، البتہ غریب غیر مسلم لوگوں کو صدقۂ فطر دینا کراہت کے ساتھ جائز ہے، اور زکوٰۃ دینا بالکل ہی جائز نہیں۔(۱) ------------------------------ =(۱/۳۳۹ ، کتاب الزکاۃ ، باب صدقۃ الفطر) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : (ودفع القیمۃ) أي الدراہم (أفضل من دفع العین علی المذہب) المفتی بہ ، أي الدراہم ربما یشعر أنہا المرادۃ بالقیمۃ مع أن القیمۃ تکون أیضاً من الفلوس والعروض ۔۔۔۔۔۔۔ العلۃ في أفضلیۃ القیمۃ کونہا أعون علی دفع حاجۃ الفقیر لاحتمال أنہ یحتاج غیر الحنطۃ مثلا من ثیاب ونحوہا ۔ (۳/۲۸۹ ، کتاب الزکاۃ ، مطلب في مقدار الفطرۃ) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : أن الناس إذا اختلفوا في صاع یقدرونہ بالوزن ، فدل علی أن المعتبر ہو الوزن، وأما صفۃ الواجب فہو أن وجوب المنصوص علیہ من حیث أنہ مال متقوم علی الإطلاق لا من حیث أنہ عین فیجوز أن یعطی عن جمیع ذلک القیمۃ دراہم أو دنانیر أو فلوساً أو عروضاً أو ما شاء وہذا عندنا ۔ (۲/۲۰۵ ، کتاب الزکاۃ ، بیان جنس الواجب وقدرہ وصفتہ) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ :ولم یتعرض المصنف لأفضلیۃ العین أو القیمۃ ، فقیل بالأول ، وقیل بالثاني ، والفتوی علیہ ، لأنہ أدفع لحاجۃ الفقیر ، کذا في الظہیریۃ ۔ (۲/۴۴۴ ، کتاب الزکاۃ ، باب صدقۃ الفطر)(فتاوی رحیمیہ :۷/۱۹۵) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {إنما الصدقٰت للفقراء والمسٰکین والعٰملین علیہا =